رسول اللہ ﷺ کی قبر کی زیارت، دعا اور قرآن کی روشنی میں عقیدہ
ماخوذ: احکام و مسائل، عقائد کا بیان، جلد 1، صفحہ 47

سوال کا مفصل جواب – قرآن، رسول اللہﷺ کی قبر کی زیارت، اور عقائد

سوال کا خلاصہ:

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اور اگر جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تیرے حضور حاضر ہوں پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہیں اور معافی مانگے ان کے لیے رسول اللہﷺ، تو بے شک اللہ عزوجل تو توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔”

اس آیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہوتے ہوئے بھی یہ فرما رہا ہے کہ توبہ کی قبولیت کے لیے میرے محبوب ﷺ کے در پر حاضر ہونا ضروری ہے۔

سوالات درج ذیل ہیں:

  1. کیا یہ حکم صرف دورِ نبوی ﷺ تک محدود تھا یا قیامت تک تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ اگر یہ عام ہے تو کیا کوئی شخص جو روضہ اقدس پر حاضر ہو کر آپ ﷺ کو مخاطب کرے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگے، یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرما رہے ہیں، تو کیا ایسا عقیدہ رکھنا شرک کہلائے گا یا قرآن کے حکم پر عمل؟ اور جو شخص مجبوری کی وجہ سے دور ہو اور حاضری نہ دے سکے، وہ اپنے گناہوں کی تلافی کیسے کرے؟
  2. کیا رسول اللہ ﷺ اپنی قبر مبارک میں دنیاوی زندگی کی مانند زندہ ہیں، نماز پڑھتے اور رزق کھاتے ہیں؟
  3. کیا رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کی زیارت صرف زیارت کے ارادے سے (کسی اور مقصد کے بغیر) کرنا شرک ہے یا باعث برکت؟ اور قبر انور کی زیارت کرنے والے کو کیا فضیلت حاصل ہوتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1) قرآن کی آیت اور گناہوں کی معافی کا مفہوم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں وقتاً فوقتاً آپ ﷺ سے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعائیں کروائیں۔ تاہم میرے علم میں یہ بات نہیں کہ کسی بھی صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ سے دعا کروائی ہو۔

اس آیت کی تفصیلی وضاحت کے لیے مولانا محمد بشیر سہسوانی کی کتاب "صیانة الإنسان” کا مطالعہ مفید ہوگا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ﴾
(الزمر: 53)
"بے شک اللہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے۔”

﴿وَمَن يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ﴾
(آل عمران: 135)
"اور کون ہے جو گناہوں کو معاف کرے سوا اللہ کے؟”

﴿وَهُوَ ٱلَّذِي يَقۡبَلُ ٱلتَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهِۦ وَيَعۡفُواْ عَنِ ٱلسَّيِّ‍َٔاتِ وَيَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُونَ﴾
(الشورى: 25)
"اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں کو معاف کرتا ہے، اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔”

لہٰذا، بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے اور اسی کی بارگاہ میں توبہ کرے:

﴿فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَٱسۡتَغۡفِرۡهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا﴾
(النصر: 3)
"تو پاکی بیان کر اپنے رب کی خوبیاں، اور اس سے گناہ بخشوا، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔”

(2) قبر میں زندگی – دنیاوی یا برزخی؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

﴿إِنَّكَ مَيِّتٞ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ﴾
(الزمر: 30)
"بے شک آپ (ﷺ) کو بھی موت آئے گی، اور ان کو بھی موت آئے گی۔”

لہٰذا رسول اللہ ﷺ اور دیگر لوگوں کی قبروں میں زندگی دنیاوی زندگی کی طرح نہیں ہوتی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قبر میں نماز پڑھنے کے واقعہ یا آیت:

﴿بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ﴾
(آل عمران: 169)
"بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔”

…سے قبر کی زندگی کو دنیاوی قرار دینا درست نہیں۔

(3) قبر انور کی زیارت – شرک یا برکت؟

مدینہ منورہ کے رہنے والے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک اور جنت البقیع کی زیارت کر سکتے ہیں، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے۔

البتہ، آپ ﷺ نے تین مساجد کے علاوہ کسی اور مقام کے لیے خاص طور پر سفر کرنے سے منع فرمایا۔ وہ تین مساجد یہ ہیں:

  • مسجد حرام (مکہ مکرمہ)
  • مسجد نبوی (مدینہ منورہ)
  • مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)

لہٰذا صرف زیارت کے لیے قبر انور کی طرف سفر کرنا باعث برکت ہے، نہ کہ شرک۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1