اللہ تعالیٰ کے موسیٰ علیہ السلام سے سوال کرنے کی حکمت اور نبی ﷺ کے متعلق غیب دانی کا مسئلہ
سوال:
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
"وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ”
(اے موسیٰ! تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟)
جبکہ اللہ تعالیٰ خود جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں کیا ہے، تو پھر ایسا سوال کیوں کیا؟ اس سوال کے پیچھے کیا حکمت تھی؟
ساتھ ہی اگر کوئی یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ بھی غیب جانتے تھے، کیونکہ جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال فرمایا حالانکہ وہ پہلے سے جانتا تھا، اسی طرح نبی ﷺ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا کرتے تھے، تو کیا نبی کریم ﷺ بھی غیب جانتے تھے؟ اس شبہ کا جواب کیا ہوگا؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:
جو لوگ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کیے گئے سوالات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ غیب جانتے تھے، ان کے لیے آپ کی بیان کردہ باتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
تاہم جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے علمِ غیب کے انکار پر قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں، ان کے لیے یہ باتیں کافی نہیں ہوں گی:
﴿قُل لَّا يَعۡلَمُ مَن فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ ٱلۡغَيۡبَ إِلَّا ٱللَّهُۚ وَمَا يَشۡعُرُونَ أَيَّانَ يُبۡعَثُونَ﴾
(النمل: 65)
"آپ فرما دیں: جو کوئی ہے آسمانوں اور زمین میں، وہ غیب کو نہیں جانتا، سوائے اللہ کے۔ اور ان کو شعور نہیں کہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔”
یہ آیت کریمہ واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا، صرف اللہ تعالیٰ ہی غیب کا علم رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا علمِ غیب اور اس کے سوال کی حکمت:
اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب کے متعلق کتاب و سنت میں واضح دلائل موجود ہیں، جن کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے، یہ سوال سے پہلے ہی معلوم تھا۔
◈ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال اس لیے نہیں تھا کہ وہ علم حاصل کرنا چاہتا تھا، بلکہ اس سوال میں ایک حکمت پوشیدہ تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا:
﴿وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ﴾
یعنی یہ سوال اس مقصد سے نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کو علم حاصل ہو، بلکہ بعد میں جب وہ عصا سانپ میں تبدیل ہوا، تو اس واقعے سے اس سوال کی بعض حکمتیں سامنے آتی ہیں۔ تاہم، مکمل حکمت کیا تھی؟ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ:
﴿وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾
"اور وہی خوب جاننے والا، حکمت والا ہے”
نبی کریم ﷺ کے متعلق غیب دانی کے شبہ کا جواب:
نبی کریم ﷺ کی جانب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کرنے کو اس طرح سمجھنا کہ آپ ﷺ بھی غیب جانتے تھے، درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
◈ اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب کے ثبوت قرآن و حدیث سے ملتے ہیں۔
◈ نبی کریم ﷺ کے متعلق علمِ غیب کا دعویٰ کرنے کے لیے کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔
◈ بلکہ احادیث و آیات میں نبی کریم ﷺ کے غیب نہ جاننے کے دلائل پائے جاتے ہیں۔
لہٰذا، نبی کریم ﷺ کی طرف علمِ غیب منسوب کرنا درست نہیں، اور یہ کہنا کہ "اسی طرح نبی ﷺ بھی صحابہ اور جبریل سے سوال کرتے تھے” لہٰذا وہ بھی غیب جانتے تھے – یہ قیاس درست نہیں۔
خلاصہ:
◈ اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال فرمانا علم حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک خاص حکمت کی بنا پر تھا۔
◈ نبی کریم ﷺ کے غیب جاننے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
◈ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو غیب جانتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت
(النمل: 65)
میں بیان کیا گیا ہے۔
◈ لہٰذا، نبی کریم ﷺ کے سوالات کو اللہ تعالیٰ کے علمِ غیب پر قیاس کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب
(یہی میری رائے ہے، اور درست بات کا علم اللہ ہی کو ہے)