اسلامی بینکوں کی لیزنگ کا شرعی حکم – مکمل وضاحت
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام و مسائل – جلد 01

لیزنگ کا شرعی جائزہ: کتاب و سنت کی روشنی میں

سوال:

آج کل اسلامی بینک لیز (اجارہ) پر اشیاء دیتے ہیں۔ کیا ان سے چیزیں لینا درست ہے؟ براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

لیزنگ کی تعریف

لیزنگ جدید مالیاتی معاملات میں سے ایک اہم معاملہ ہے۔ "لیز” دراصل عربی لفظ الاجارہ کا ترجمہ ہے، جو ایک شرعی اصطلاح ہے۔ لیکن موجودہ دور میں رائج لیزنگ، شرعی اجارہ سے مختلف ہے۔

شرعی اجارہ کی تعریف:

"بيع منفعة معلومة باجر معلوم”
’’طے شدہ اجرت کے بدلے طے شدہ منفعت فروخت کرنا۔‘‘
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 18/251)

شرعی اجارہ کی دو اقسام:

➊ معاوضہ کے بدلے کسی شخص (مثلاً انجینئر وغیرہ) کی خدمات حاصل کرنا۔
➋ اپنی ذاتی چیز جیسے گاڑی یا مکان کا استعمالی حق کسی اور کو منتقل کرنا اور اس کے بدلے کرایہ وصول کرنا۔

اقتصادی ماہرین کے نزدیک جب لیزنگ کا ذکر کیا جاتا ہے، تو اس سے عام طور پر دوسری قسم (اشیاء کے استعمال کا حق منتقل کرنا) مراد لیا جاتا ہے۔

اجارہ کا شرعی عمل

صحیح بخاری میں اجارہ کے تحت دونوں اقسام کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں:

◈ اصل ملکیت مالک کی ہی رہتی ہے۔

◈ مستاجر صرف اس چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے، اور کرایہ ادا کرتا ہے۔

ملکیتی اخراجات جیسے پراپرٹی ٹیکس مالک ادا کرے گا۔

◈ استعمال سے متعلقہ اخراجات جیسے بجلی، گیس، پانی کے بل مستاجر ادا کرے گا۔

◈ اگر مستاجر کی غلطی، غفلت یا کوتاہی کے بغیر کرایہ پر دی گئی چیز کو نقصان پہنچے تو اس کی ذمہ داری مالک پر ہو گی۔

جدید لیزنگ (البیع الایجاری) کا طریقہ

انیسویں صدی عیسوی میں ایک نئی طرز کی لیزنگ متعارف ہوئی جسے البیع الایجاری کہا جاتا ہے یعنی:

’’وہ اجارہ جو بیع پر ختم ہوتا ہے‘‘

اس کی عملی صورت:

◈ بینک چند سالوں کے لیے گاڑی خرید کر لیز پر دیتا ہے۔

◈ کرایہ اقساط میں وصول کیا جاتا ہے۔

◈ اس کرایہ کی ترتیب میں بینک اپنی اصل رقم کے علاوہ وہ نفع بھی شامل کرتا ہے جو اسے سود کی شکل میں ملنا تھا۔

◈ جب گاہک مکمل اقساط ادا کر دیتا ہے تو ملکیت اس کے نام ہو جاتی ہے۔

◈ اس دوران گاڑی کے تمام نقصانات کی ذمہ داری گاہک کی ہوتی ہے۔

اس طریقہ کار کے بارے میں مختلف آراء:

بعض علماء کی رائے:

◈ یہ ایک جدید شکل ہے جس پر شریعت میں ممانعت نہیں، اس لیے یہ جائز ہے۔

بعض علماء کی رائے:

◈ اس میں دو عقد (اجارہ اور بیع) جمع ہو رہے ہیں، جو ناجائز ہے۔

◈ سب سے اہم اعتراض: سودی آمیزش کا ہونا۔

سودی پہلو کی وضاحت

جب گاہک گاڑی لینے جاتا ہے تو:

◈ وہ گاڑی کی قیمت کا کچھ حصہ ڈاؤن پے منٹ کے طور پر ادا کرتا ہے (کم از کم 10 فیصد)۔

باقی رقم اقساط میں لی جاتی ہے، جس میں اضافی رقم کا انحصار ڈاؤن پے منٹ پر ہوتا ہے۔

◈ اگر ڈاؤن پے منٹ کم ہو تو سود کی رقم زیادہ، اور اگر زیادہ ہو تو سود کم۔

مثال:

◈ اگر Baleno گاڑی لی جائے:

▪ ڈاؤن پے منٹ: 5 لاکھ

▪ ماہانہ قسط: 9738 روپے (5 سال کے لیے)

▪ کل اقساط: 584280 روپے

▪ کل ادائیگی: 1084260 روپے

◈ اگر ڈاؤن پے منٹ: 2 لاکھ ہو:

▪ کل اقساط: 984480 روپے

▪ کل ادائیگی: 1184480 روپے

فرق کی وضاحت:
یہ فرق دراصل سود ہے، کیونکہ اصل رقم دونوں صورتوں میں برابر ہے، لیکن صرف کم یا زیادہ ڈاؤن پے منٹ کی بنیاد پر سود کی شرح مختلف ہو گئی۔ اگر یہ حقیقی اجارہ ہوتا تو:

◈ کرایہ صرف حق استعمال پر ہوتا۔

◈ بینک نقصان کا بھی ذمہ دار ہوتا۔

یہ ثابت کرتا ہے کہ موجودہ لیزنگ اجارہ کے نام پر سودی معاملہ ہے۔

ایک شبہ کا جواب: کیا یہ قسطوں کی بیع ہے؟

کچھ افراد اسے بیع بالتقسیط (قسطوں کی بیع) قرار دیتے ہیں اور اس کے جواز کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر:

یہ درست نہیں، کیونکہ:

➊ تفصیلات کے مطابق اسے بیع قسط نہیں کہا جا سکتا۔

➋ یہ دراصل دو عقود پر مشتمل ہے:

▪ عقد اجارہ

▪ عقد بیع

جبکہ بیع قسط میں صرف ایک ہی عقد ہوتا ہے۔

➌ بیع قسط میں چیز کی ملکیت فوری طور پر خریدار کو منتقل ہو جاتی ہے، لیکن یہاں:

▪ ملکیت تمام اقساط کی ادائیگی پر مشروط ہے۔

▪ یہ بیع کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ بیع کا مقصد یہ ہے کہ چیز خریدار کی ملکیت میں آ جائے۔

لیزنگ کے شرعی متبادل

اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کی تجاویز (10 تا 15 دسمبر 1988، کویت اجلاس):

پہلا متبادل:

مدت ختم ہونے کے بعد مستاجر کے پاس تین اختیارات ہوں:

➊ گاڑی واپس کر کے اجارہ ختم کر دے۔

➋ نیا اجارہ معاہدہ کرے۔

➌ گاڑی خرید لے۔

(بحوالہ: بحوث فی الاقتصاد الاسلامی، ڈاکٹر علی القراہ الداغی)

◈ اگرچہ بعض علماء کو اس میں اعتراض ہے کہ مؤجر، مستاجر کی پسند کا پابند بن جاتا ہے، مگر یہ اعتراض زیادہ وزنی نہیں ہے۔

◈ اگر اس کا عملی نفاذ صحیح ہو تو یہ صورت شرعاً جائز ہے۔

دوسرا متبادل:

بیع بالتقسیط ہو، لیکن شرط یہ ہو کہ:

ملکیت کا انتقال آخری قسط کی ادائیگی کے ساتھ مشروط نہ ہو۔

▪ بلکہ اس کے لیے دیگر ضمانتیں لی جائیں۔

(ایضا)

نوٹ:

مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں:
’’دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم‘‘

وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1