نماز کے لئے لباس کے ضمن میں کسی صحیح صریح اور خاص حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے، آئمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی امام سے اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی فقیہ یا محدث سے یہ ثابت نہیں کہ مردوں کو نماز میں سر کا ڈھانپنا بھی شرط یا واجب یا ضروری قرار دیا گیا ہو۔
مگر ہمارے یہاں اس سلسلے میں بڑے تشدد سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ننگے سر نماز پڑھ لے تو اسے خمیں آنکھوں سے تاڑا جاتا ہے۔ جیسے کہ اس سے کوئی بہت ہی گھناؤنا جرم سرزد ہو گیا ہو، اور اس شخص کو بڑا برا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کہ اس نے کسی گناہ کبیرہ کا علانیہ ارتکاب کر لیا ہو۔ اور کئی مہربان
از راہِ شفقت کوئی نہ کوئی بوسیدہ ہی کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی یا پھر کوئی سوتی مگر تیل اور میل سے اٹی ہوئی ٹوپی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔ اور بعض حضرات شدتِ احساس میں اس حد تک مبتلا ہو جاتے ہیں کہ پاس کوئی رومال یا ٹوپی نہ ہو اور مسجد سے بھی کسی چیز کے میسر نہ آنے پر قمیص کے بٹن کھول لیتے ہیں، اور کالر اٹھا کر اسے گلے کی بجائے سر پر رکھ لیتے ہیں تا کہ سر ننگا نہ رہے، حالانکہ یہ تمام اندازِ سرپوشی شرعی اعتبار سے درست نہیں۔ کیونکہ سر کو ڈھانپنے کے ضروری ہونے کی کوئی خاص دلیل صحیح نہیں ہے۔ البتہ اگر مطلق زینت اختیار کرنے سے پگڑی یا ٹوپی کی فضیلت اخذ کی جائے تو وہ ایک دوسری بات ہے اور وہ بھی محض فضیلت کی حد تک ہے نہ کہ شرط یا وجوب کے لئے۔ ان مطلق دلائل کا تذکرہ بعد میں کریں گے ان شاء اللہ۔
نماز میں پگڑی کے فضائل والی روایات کا جائزہ
یہاں پہلے ان احادیث کا جائزہ پیش کرنا ضروری ہے جن میں پگڑی یا ٹوپی کی بہت ہی زیادہ فضیلات بتائی گئی ہیں جو کہ سب من گھڑت اور ضعیف ہیں۔
پہلی حدیث:
نماز میں پگڑی یا ٹوپی سے سر کو ڈھانپنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی جن بعض احادیث کو پیش کیا جاتا ہے، ان میں سب سے پہلی حدیث ابن النجار نے (محمد بن مہدی المروزی تک) اپنی سند سے روایت کی ہے۔ جس میں مہدی بن میمون بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے سالم کے یہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ عمامہ (پگڑی) باندھ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے ابوایوب:
الا أحدثك بحديث تحبه وتحمله وترويه؟
میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جسے تم پسند کرو اور یاد رکھو اور آگے بیان کرو؟
میں نے عرض کیا: ضرور سنائیں۔ تو انہوں نے فرمایا:
دخلت على عبد الله ابن عمر وهو يعتم
”میں اپنے والد گرامی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گیا جب کہ وہ عمامہ باندھ رہے تھے۔“
انہوں نے مجھے فرمایا:
يا بني أحب العمامة يا بني اعتم تجل وتكرم وتوفر ولا يراك الشيطان الأولى هاربا. إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: صلاة بعمامة تعدل خمسا وعشرين صلاة بغير عمامة وجمعة بعمامة تعدل سبعين جمعة بغير عمامة، إن الملائكة يشهدون الجمعة معتمين ولا يزالون يصلون على أصحاب العمائم حتى تغرب الشمس
”اے میرے بیٹے! عمامہ (پگڑی) کو محبوب رکھو۔ اے بیٹے! عمامہ باندھ، تمہاری جلالت وقدر، عزت و شرف اور تعظیم و توقیر ہوگی اور شیطان تمہیں دیکھتے ہی بھاگ جائے گا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عمامہ (پگڑی) باندھ کر پڑھی گئی ایک نماز بغیر عمامے کے پڑھی گئی پچیس (25) نمازوں کے برابر ہوتی ہے اور عمامہ باندھ کر پڑھی گئی ایک نماز جمعہ بغیر عمامہ پڑھی گئی جمعہ کی ستر نمازوں کے برابر ہے۔ بے شک فرشتے عمامہ باندھ کر جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں، اور غروب آفتاب تک دستار و عمامہ والوں کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ “
امام سیوطی نے اس روایت کو تاریخ ابن عساکر اور الفردوس دیلمی کی طرف منسوب کیا ہے۔
اس کی استنادی حیثیت:
اس حدیث کی استنادی حیثیت معلوم کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ محدثین کرام نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ امام سیوطی نے اسے ذيل الاحاديث الموضوعه کے صفحہ 10 پر نقل کیا ہے اور اس کے موضوع یا من گھڑت ہونے کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح تنزيه الشريعه میں ابن عراق نے بھی ان کی متابعت کی ہے۔ اور اسے من گھڑت روایات میں شمار کرنے کے باوجود امام سیوطی سے ذہول ہوا تو ابن عساکر کے حوالے سے اسے الجامع الصغیر میں بھی نقل کر دیا۔ اور فتح القدیر شرح الجامع الصغیر میں علامہ مناوی نے امام سیوطی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اور پھر المقاصد صفحہ 122پر علامہ سخاوی نے بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ نقل کیا ہے اور اسے پسند کیا ہے۔ اور خود امام سیوطی نے ذیل الاحادیث الموضوعہ نامی اپنی کتاب میں ابن حجر سے اس حدیث کی یہ حیثیت نقل کی ہے۔ اور ماضی قریب کے معروف حنفی محدث ملا علی قاری نے من گھڑت احادیث پر مشتمل اپنی کتاب ”الموضوعات“ (صفحہ 51) میں فقہاء مالکیہ میں سے ابوالحسن علی بن محمد المصری الشاذلی سے ان کا اس حدیث کے بارے میں قول نقل کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
هذا حديث باطل
”یہ باطل روایت ہے۔ “
اور لسان المیزان (244/3) میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے:
هذا حديث موضوع
”یہ روایت جعلی و من گھڑت ہے۔ “
اور آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کے راویوں عباس بن کثیر، ابو بشیر بن ستار، محمد بن مہدی مروزی اور مہدی بن میمون کے غیر معروف و مجہول ہونے کا تذکرہ کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ حضرت سالم سے روایت کرنے والے راوی مہدی بن میمون وہ بصری مہدی نہیں، جن کی مرویات صحیحین میں ہیں، یہ کوئی دوسرے ہیں۔
اس حدیث کو محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی نے اپنی کتاب سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة میں نقل کر کے اس پر با تفصیل کلام کیا ہے جو اس کتاب کی جلد اول صفحہ 158 تا 160 پر دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری حدیث:
اس موضوع کی ایک دوسری حدیث بھی ہے، جس سے عمامہ و دستار یا پگڑی و ٹوپی پہن کر پڑھی جانے والی نماز کی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ وہ حدیث جسے حلیہ اولیاء میں ابو نعیم نے اور انہی کے طریق سے دیلمی نے الفردوس میں روایت کیا ہے۔ اس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
ركعتان بعمامة خير من سبعين ركعة بلا عمامة
عمامہ باندھ کر پڑھی گئی دو رکعتیں، بلا عمامہ پڑھی گئی ستر رکعتوں سے بہتر ہیں۔
استنادی حیثیت:
اس روایت کو بھی محدثین کرام نے من گھڑت کہا ہے، کیونکہ اس کی سند کے ایک راوی طارق بن عبد الرحمن ہیں جنہیں شرح الجامع الصغیر میں علامہ مناوی نے ضعیف ثابت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام ذہبی نے اپنی کتاب الضعفاء میں وارد کیا ہے اور کہا ہے:
لا يكاد يعرف
”کہ یہ غیر معروف ہے۔ “
اور اس کے بارے میں امام نسائی کا قول نقل کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
ليس بقوي
”کہ یہ قوی نہیں ہے۔ “
اور امام سخاوی نے اس روایت کے بارے میں المقاصد الحسنة میں کہا ہے:
هذا الحديث لا يثبت
”یہ حدیث ثابت نہیں ہوتی یعنی صحیح نہیں ہے۔“
تیسری حدیث:
سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة میں اس کے مؤلف نے لکھا ہے کہ میں نے حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کے خط سے لکھا ہوا ان کی شرح ترمذی کے نامکمل مسودہ (2/83) کے ایک حصہ کو دیکھا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک نصیبی شیخ محمد بن نعیم کے بارے میں پوچھا گیا اور بتایا گیا کہ اس شیخ نے عن سہل عن ابی عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے:
صلاة بعمامة أفضل من سبعين صلاة بغير عمامة
عمامہ والی ایک نماز بغیر عمامہ سے پڑھی گئی ستر نمازوں سے افضل ہے۔
استنادی حیثیت:
یہ سن کر امام احمد نے اس کے بارے میں فرمایا:
هذا كذاب، هذا باطل
”یہ (نصیبی شیخ محمد بن نعیم) کذاب یعنی انتہائی جھوٹا اور اس کی بیان کردہ یہ روایت باطل ہے۔ “
چوتھی حدیث:
دستار و عمامہ یا پگڑی و ٹوپی کی فضیلت کے بارے میں ایک اور روایت بھی ہے، جس میں ایک دوسرا انداز وارد ہوا ہے اور عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کو دس ہزار نیکیاں کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ الفردوس دیلمی کے حوالے سے ذیل الاحادیث الموضوعہ (صفحہ 1) میں امام سیوطی نے یہ روایت وارد کی ہے جو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ اس روایت میں ہے:
الصلاة فى العمامة تعدل بعشرة آلاف حسنة
عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا دس ہزار نیکیاں کرنے کے برابر ہے۔
استنادی حیثیت:
امام سیوطی نے اس روایت کو ذیل الاحادیث الموضوعہ یعنی من گھڑت احادیث کے ضمیمہ میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کے ایک راوی ابان کو متہم لکھا ہے۔ اور ابن عراق نے تنزیہ الشریعہ نامی کتاب (257/2) میں ان کی متابعت کرتے ہوئے اس راوی کو متہم قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر کی پیروی کرتے ہوئے ان کے شاگرد حافظ سخاوی نے اپنی کتاب المقاصد الحسنة صفحہ 124 میں اس روایت کے بارے میں کہا ہے:
إنه موضوع
یہ روایت من گھڑت ہے۔
اور ملا علی قاری نے موضوعات صفحہ 51 میں مالکی فقیہ شیخ صوفی سے اس کے بارے میں لکھا ہے:
إنه حديث باطل
کہ یہ روایت باطل ہے۔
اور عمامہ کی فضیلت کے بارے میں ممکن ہے کچھ اور احادیث بھی ہوں۔ لہذا اس سلسلے میں ایک قاعدہ کلیہ ذہن میں رکھیں جو کہ علامہ ابن قیم کی ایک مختصر مگر نفیس ترین کتاب “المنار المنیف فی الصحیح والضعیف” کے آخر میں “کلیات فی احادیث غیر صحیحہ” کے عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے اور ضعیف احادیث کو پہچاننے کے قواعد و ذرائع کے بیان پر مبنی اس کتاب میں علامہ موصوف نے انتہائی تجر علمی کا مظاہرہ فرمایا ہے۔ جو کہ قابل مطالعہ اور چھوٹے سائز کے صرف پونے دو سو صفحات کی کتاب ہے۔ کتاب کے محقق استاذ محمود مہدی استنبولی نے علامہ ابن قیم کے ذکر کردہ ضعیف و موضوع احادیث کی پہچان کے قواعد میں سے ہی ایک یہ بھی لکھا ہے:
ولا يصح فى العمامة حديث ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبسها
عمامہ کی فضیلت کے بارے میں وارد شدہ احادیث میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا کرتے تھے۔
اور ان روایات کے موضوع و باطل ہونے میں اس لئے تردد نہیں رہنا چاہئے کہ ان میں عمامہ والی نماز کا ثواب اتنا ہی بتایا گیا ہے جتنا اکیلے نماز پڑھنے والے کی نسبت با جماعت نماز پڑھنے والے کا ثواب ہے۔ جب کہ عمامہ باندھنا اور جماعت میں شامل ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ عمامہ باندھنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہے۔ بلکہ راجح بات یہ ہے کہ یہ سکن عادت میں سے ہے۔ سکن عبادت میں سے نہیں (اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے عادت پہننے پر ثواب بھی ہے مگر نماز با جماعت سے اس کا کیا مقابلہ ہے؟ وہ تو کم از کم سنت مؤکدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ بلکہ بعض اہل علم نے تو جماعت کو نماز کا رکن و شرط بنا دیا ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، اگرچہ صحیح وراجح مسلک یہ ہے کہ جماعت فرض و واجب ہے جسے ترک کرنے سے نماز تو ہو جائے گی، لیکن وہ ترک جماعت پر سخت گناہگار بھی ہوگا (جس کی تفصیل ہم اپنی ایک دوسری کتاب میں ذکر کر چکے ہیں)۔
ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ شارع حکیم و علیم محض عمامہ باندھ کر پڑھی گئی نماز کے اجر و ثواب کو جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ کر دے (جیسا کہ ان روایات میں وارد ہوا ہے)۔ اور غالباً حافظ ابن حجر نے اسی نقطہ کے پیش نظر اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔
ان باطل روایات کے اثرات:
ان ضعیف و باطل اور نا قابل تجبت و اعتبار روایات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بعض بھائیوں نے خصوصاً پاک و ہند میں ٹوپی یا عمامہ کو وہ مقام دے دیا ہے کہ قمیص کا کالر تک اٹھا کر سر پر رکھ لیتے ہیں۔ کوئی ننگے سر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا جاتا ہے۔ یا پھر کوئی نہ کوئی از راہِ کرم کوئی بوسیدہ ٹوپی اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ جسے قطعاً زینت کا باعث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ ہماری مساجد میں دستیاب ہونے والی ٹوپیاں زینت تو کجا اُلٹا بدصورتی و بد ذوقی اور سوء منظر کا سبب بنتی ہیں۔
اول تو ان روایات کی حیثیت معلوم ہونے سے پتہ چل گیا کہ ٹوپی یا عمامہ اور پگڑی و دستار کی کوئی فضیلت ثابت نہیں اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستار و عمامہ باندھنے کے عمل سے اس کی فضیلت مان بھی لی جائے تو پھر ضروری ہے کہ دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی نماز کے لئے استعمال کی جائے جسے دور حاضر میں واقعی زینت و عزت اور رعب و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور صرف نماز کے لئے ہی نہیں، عام حالات میں ادھر اُدھر نکلنے یا کسی کے ہاں مہمان جانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہو۔
محض سر کو ڈھکنا اور وہ بھی ایسی ٹوپیوں سے، جنہیں اگر آپ سے کہا جائے کہ سر پر پہن کر بازار کا چکر لگاؤ یا کسی عزیز رشتہ دار کے یہاں سے ہو آؤ تو اسے پہن کر جانے میں آپ شرم محسوس کریں۔ تو پھر کیا اللہ کی ذات اور اس کے گھر ہی (نعوذ بالله) ایسے غیر اہم مقامات ہیں کہ جن کے یہاں آپ ایسی مانگے کی ٹوپیاں اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی پہن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ادھر نماز سے فارغ ہوئے اور ٹوپی اتاری اور صفوں کی آخری دیوار کے پاس پھینک دی یا پھر اسے تہہ کر کے جیب میں محبوس کر دیا۔
یا درکھیں کہ دستار و عمامہ مسلمان کی شان اور اس کا امتیاز ہے۔ جو نماز کی نسبت نماز سے باہر عام حالات میں زیادہ ضروری ہے تاکہ مسلمان کی پہچان ہو سکے۔ اور وہ دستار و عمامہ جو امتیاز کے طور پر عام حالات میں پہنا جائے وہی نماز میں بھی پہنا جانا چاہئے۔
اور ان ٹوپیوں کو رواج دینے کے نتیجے میں ہی اللہ کے گھروں کو اس طرح بھی ”غیر اہم “ بنایا جاتا ہے کہ انہیں اپنی سخاوت کا مرکز بناتے ہوئے ٹوپیاں خرید کر اس میں رکھی جاتی ہیں۔ جو تھوڑے ہی عرصے میں تیل اور میل سے اٹ جاتی ہیں اور جابجا سے پھٹ جاتی ہیں۔ مگر مسجد سے ہٹائے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح مسجد کو بلا وجہ ایک خیراتی ادارے کا سارنگ دے دیا جاتا ہے۔ جو کہ بہر حال اللہ کے گھروں کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کے مقام اور تقدس کو مجروح کرنے کا ذریعہ ہے۔
ننگے سر نماز کا جواز :
فضیلت والی روایات کی استنادی حیثیت اور ان کے نتائج و اثرات کے بعد اب آئیے ننگے سر نماز کا حکم بھی معلوم کریں کہ آیا اس طرح نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں برصغیر میں مسلمانوں کے دو بڑے مکتب فکر ہیں، ایک اہل سنت اور دوسرے اہل حدیث، جب کہ اہل سنت میں دو بڑی شاخیں ہیں اور وہ دونوں ہی احناف کہلواتی ہیں۔ ان میں ایک ہیں دیوبندی احناف اور دوسرے ہیں بریلوی احناف۔ اس طرح ہمارے سامنے تین بڑے مکتب فکر آتے ہیں۔ لہذا آئیے ان تینوں کے نزدیک ننگے سر نماز کی شرعی حیثیت دیکھیں۔ چنانچہ ان تینوں میں سے غالب اکثریت بریلوی حضرات کی ہے۔ لہذا پہلے بریلوی موقف دیکھیں۔
1. بریلوی موقف:
بریلوی موقف کو معلوم کرنے کے لئے جب اس مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان کی تصریحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی کتاب احکام شریعت حصہ اول مسئلہ 54 کے ضمن میں لکھتے ہیں:
اگر بنیت عاجزی ننگے سر (نماز) پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔
اس کتاب احکامِ شریعت حصہ دوم مسئلہ 39 کے جزء ب میں لکھتے ہیں:
اگر نماز کے دوران ٹوپی سر سے گر جائے تو اٹھا لینی چاہئے۔ یہی افضل ہے جب کہ بارہا نہ گرے۔ اور اگر تذلل و انکساری کی نیت سے سر برہنہ رہنا چاہے تو (گری ہوئی ٹوپی نہ اٹھانی چاہئے)۔
بریلوی مکتب فکر کی دوسری کتاب عرفانِ شریعت حصہ اول مسئلہ 9 کے تحت لکھا ہے:
اگر مقتدی عمامہ باندھے ہوں اور امام کے سر پر عمامہ نہ ہو تو نماز بلا تکلف درست ہوگی۔
لیجئے بریلوی موقف خود اس مکتب فکر کے بانی و سرخیل کے اپنے اقوال و فتاویٰ کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ ان کے علماء کے نزدیک ننگے سر نماز ہو جاتی ہے۔ اور یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ اس مکتب فکر کے لوگ ننگے سر نماز پڑھنے والوں پر گرجتے اور برستے ہیں۔
2. دیوبندی موقف:
احناف میں بریلوی مکتب فکر کے بعد دوسرا مکتب دیوبندی ہے۔ جب کہ ان کی متداول کتب میں بھی ننگے سر نماز کو جائز لکھا گیا ہے۔ مثلاً امام طحاوی کی کتاب معانی الآثار (234/1) میں مذکور ہے:
مردوں کے لئے صرف ایک ہی کپڑے میں نماز جائز ہے۔
اور لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور امام محمد کا بھی یہی قول ہے اور ظاہر ہے کہ جب ایک کپڑے میں نماز کو جائز قرار دیا گیا ہے تو یقیناً اس میں سر کو ڈھانپنا شامل نہیں ہو سکتا۔ جو ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل ہو سکتی ہے۔
فقہ السنہ میں سید سابق نے لکھا ہے:
حنفیہ کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ ننگے سر نماز پڑھنا خشوع کے لئے ہو تو ان کے نزدیک مستحب ہے۔
اور مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں پانچ سو علماء احناف کی مرتب کردہ کتاب فتاویٰ عالمگیری میں فقہ حنفی کی کتاب ”الذخیرہ“ سے نقل کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
يكره الصلاة حاسرا رأسه إذا كان يجد العمامة وقد فعل ذلك تكاسلا وتهاونا ولا بأس به إذا فعله تذللا وخشوعا بل هو حسن، كذا فى الخيرية
ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے جب کہ اس کے پاس عمامہ بھی موجود ہو اور اس نے سستی کرتے ہوئے اور عمامہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھی ہو۔ اور اگر وہ خشوع و خضوع کے لئے ننگے سر نماز پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔
اور کتاب الذخیرہ میں ایسے ہی لکھا ہے۔
اسی طرح فقہ حنفی کی معروف کتاب شرح وقایہ میں مکروہات نماز کے ضمن میں لکھا ہے:
وصلاته حاسرا رأسه للتكاسل أو للتهاون بها لا للتذلل
سستی کی وجہ سے یا عمامہ سے لا پرواہی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا تو مکروہ ہے۔ لیکن تذلل و انکساری کے لئے ایسا کیا جائے تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
اس شرح وقایہ کے حاشیہ عدۃ الرعایہ میں مولانا عبد الحی حنفی “للتذلل” کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لا للتذلل أى لقصد التذلل وإظهار الخشوع لا للتدلل فإن الخشوع فى الصلاة أمر مستحسن وهو وإن كان من أفعال القلب لكن لا بأس بإظهار آثاره فى الظاهر
یعنی اگر ننگے سر نماز پڑھنا تذلل و انکساری کے لئے ہو تو مکروہ نہیں، ان الفاظ میں ‘تذلل کے لئے نہیں’ سے مراد یہ ہے کہ جب تذلل اور خشوع کا اظہار کرنا مقصود ہو تب مکروہ نہیں کیونکہ نماز میں خشوع ایک اچھا فعل ہے۔ یہ خشوع اگرچہ در اصل تو دل کے افعال سے ہے، لیکن اس کے آثار و علامات کو ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اسی طرح دیوبندی مکتب فکر کے علماء کی کتب میں سے احسن الفتاویٰ اور شرح التنویر میں بھی ننگے سر نماز کو جائز و درست قرار دیا گیا ہے۔ جنہیں ہمارے بھائی یا تو پڑھتے نہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں۔ یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ البتہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لئے ان کتابوں کا متعلقہ اقتباس اور ایک دیوبندی عالم مولانا لدھیانوی کا فتویٰ بھی آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔
ایک فتویٰ:
دیوبندی مکتب فکر کے ہی ایک عالم مولانا لدھیانوی کا ایک فتویٰ روزنامہ ”جنگ لاہور“ بابت 13 اکتوبر 1986ء میں شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے مساجد میں پائی جانے والی چٹائی وغیرہ کی ٹوپیوں کی قباحتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ننگے سر نماز کے جواز کا فتویٰ جاری کیا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کے بقول:
پہلی بات: یہ کہ چٹائی کی ٹوپیاں پہننے والوں کی نماز نہیں ہوتی۔ اور ایسی ٹوپیاں مسجد میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ اور آگے اس کی وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے مختصراً ایک وجہ یہ ہے کہ ان ٹوپیوں سے مسجد کا احترام مجروح ہوتا ہے۔
دوسری بات: دوسری وجہ یہ کہ ٹوپیوں پر میل کی تہ اور پسینے کی بدبو خلاف زینت اور ناگوار ہوتی ہے۔
تیسری بات: ٹوپیوں کو مسجد میں رکھنے کے عدم جواز کی ایک اور دلیل موصوف نے یہ بھی ذکر کی ہے کہ ان ٹوپیوں کے مسجد میں رکھنے کی وجہ سے لوگ مسجد کو عبادت گاہ کی بجائے خیراتی اور رفاہی ادارہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جو مسجد کے مقاصد کے خلاف ہے اور اس سے مسجد کی توہین ہوتی ہے۔
چوتھی بات: مفتی صاحب موصوف نے فتویٰ میں احسن الفتاویٰ کے حوالے سے شرح التنویر کی وہ عبارت بھی نقل کی ہے جو کہ مکروہات الصلوٰة کے ضمن میں ہے۔ جس میں کہا گیا ہے:
وصلاته حاسرا أى كاشفا رأسه للتكاسل، ولا بأس به للتذلل
سستی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور انکساری کی نیت سے ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
اس اقتباس کو نقل کر کے اس کے آخری الفاظ ولا بأس به للتذلل سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ بلا تکاسل (سستی) برہنہ (یعنی ننگے سر) نماز پڑھنے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔
یہ ایک دیوبندی عالم اور معروف مفتی کا فتویٰ ہے جس میں انہوں نے عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ ننگے سر نماز کے جواز اور مساجد میں ان ٹوپیوں کے رکھنے کے عدمِ جواز کی صراحت کی ہے۔
اس فتویٰ پر ایک دوسرے دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر گھڑوی کا تعاقب بھی روزنامہ جنگ، لاہور، 2 نومبر 1986ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے اپنے تمام پیش رو آئمہ و علماء کے فتاویٰ و تصریحات کے برعکس عوام الناس کے مروجہ رویے کے پیش نظر اور شاید ان کی تائید حاصل کرنے کے لئے ٹوپی کو لازم قرار دے دیا۔ مگر کوئی واضح دلیل نہیں دے پائے۔ اور کسی بھی بلا دلیل دعویٰ کے باطل ہونے کا اصول معروف ہے۔
3. اہل حدیث موقف:
تیسرا مکتب فکر اہل حدیث حضرات کا ہے جن کے نزدیک ننگے سر نماز تو ہو جاتی ہے، خصوصاً جب یہ ضرورتاً بھی ہو۔ لیکن محض سستی و لا پرواہی کی بناء پر ننگے سر نماز پڑھنے کو فیشن ہی بنا لینا، اسے وہ بھی پسند نہیں کرتے۔ بلکہ تمام احناف کی طرح اس صورت کو وہ بھی غیر مستحسن یا مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔
مجلہ اہل حدیث سوہدرہ:
اس سلسلے میں ایک مختصر فتویٰ مجلہ اہل حدیث سوہدرہ (جو گوجرانوالہ، پاکستان کے ایک قریبی چھوٹے سے مگر معروف علمی گاؤں سوہدرہ سے شائع ہوتا تھا) اس کی جلد 15، شمارہ 22 میں شائع ہوا تھا۔ جس میں مفتی مجلہ نے لکھا تھا:
ننگے سر نماز ہو جاتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جواز ملتا ہے مگر بطور فیشن، لا پرواہی اور تعصب کی بناء پر مستقل اور ابد الآباد کے لئے یہ عادت بنا لینا جیسا کہ آجکل دھڑلے سے کیا جا رہا ہے، ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ عمل نہیں کیا۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی:
اسی سلسلے میں ممتاز اہل حدیث عالم مولانا سید محمد داؤد غزنوی سے جب پوچھا گیا کہ بدن پر کپڑے ہوتے ہوئے سر پر سے ٹوپی یا پگڑی اتار کر رکھ دینی، اور کوئی عذر بھی نہ ہو، اور ہمیشہ اسی طرح ہی نماز پڑھنا، اگرچہ فرض با جماعت مسجد میں ہو، اس کے لئے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثبوت ملتا ہے؟ اور ننگے سر نماز پڑھنی افضل ہے یا سر ڈھانک کر؟ اور ساتھ ہی دلائل کا مطالبہ کیا گیا تو موصوف نے 29 جمادی الاولیٰ 1379ھ کو جو فتویٰ صادر فرمایا جسے انہوں نے اپنے والد بزرگوار کی طرف منسوب کیا ہے، وہ لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ” الاعتصام“ کی جلد 1 کے شمارہ 18 میں نشر ہوا۔ وہ فتویٰ قدرے طویل ہے اس لئے اس کا حتی الامکان مفید خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
سر اعضائے ستر میں سے نہیں لیکن نماز میں سر ننگا رکھنے کے مسئلے کو اس لحاظ سے بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے اور آگے کندھوں کو ڈھانپنے پر دلالت کرنے والی بخاری و مؤطا امام مالک کی روایات اور مؤطا کی شرح زرقانی (و تمہید) ابن عبد البر، بخاری کی شرح فتح الباری، اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب الاختیارات اور امام ابن قدامہ کی المغنی سے تفریحات و اقتباسات نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضائے ستر میں سے نہیں ہیں، اس کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضاء ستر میں سے نہ سہی لیکن آداب نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلاوجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے ہی زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے۔
اور آگے لکھا ہے:
ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑ کر جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری، جس میں یہ صراحت ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے مسجد میں اور وہ بھی نماز با جماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو، چہ جائیکہ معمول بنا لیا ہو۔ اس رسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہئے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ اگر تعبد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے (ننگے سر) پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ ہوگا۔ اسلام میں ننگے سر رہنا سوائے احرام کے، تعبد یا خشوع و خضوع کی علامت نہیں اور اگر کسل اور سستی کی وجہ سے ہے تو یہ منافقین کی ایک خصلت سے متشابہ ہوگا:
﴿وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ﴾
(9-التوبة:54)
”نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر۔ “
غرض ہر لحاظ سے یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔
تو گویا موصوف کے نزدیک اگرچہ سر اعضائے ستر میں سے نہیں کہ اس کا ڈھانپنا واجب ہو البتہ آداب نماز کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ڈھانپا جائے۔ اور ننگے سر نماز کو عادت بنا لینا نہ ثابت ہے نہ پسندیدہ۔
موصوف کا فتویٰ تو پورا ہی قابل مطالعہ تھا، مگر ہم نے خلاصے پر ہی کفایت کی ہے۔ شائقین اسے الاعتصام کے مذکورہ شمارے میں یا پھر فتاویٰ علماء حدیث کی جلد چہارم صفحہ 290-291 پر دیکھ سکتے ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ :
ننگے سر نماز کے سلسلے میں ہم نے اہل حدیث موقف کا تذکرہ شروع کیا ہے، جس کے ضمن میں ہم نے دو فتوے بھی ذکر کئے ہیں۔ جب کہ دوسرے فتوے والا استفتاء ہی ایک معروف اہل حدیث عالم شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی آف گوجرانوالہ کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ جس پر موصوف نے بڑا تفصیلی جواب یا فتویٰ صادر کیا تھا۔ جسے ہفت روزہ ”الاعتصام“ نے اپنی اسی اشاعت میں نشر کیا تھا، جس میں مولانا غزنوی والا قدرے مفصل مگر اس سے نسبتاً مختصر فتویٰ نشر کیا تھا۔
مولانا محمد اسماعیل کا یہ فتویٰ بھی کافی مفصل و مدلل ہے جو کہ درمیانے سائز کی کتاب فتاویٰ علمائے حدیث کے چار صفحات پر مشتمل ہے جس میں پہلے موصوف نے لکھا ہے کہ اس سوال پر تین وجوہ سے غور کیا جا سکتا ہے:
1. مطلق جواز اور اباحت کے لحاظ سے۔
2. افضلیت یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عام عمل کے لحاظ سے۔
3. حرمت اور عدمِ جواز کے لحاظ سے۔
اور پھر نماز میں ستر مغلظ (شرمگاہ) کو ڈھانپنے کے دلائل ذکر کئے ہیں اور ذکر کیا ہے کہ اعضاء ستر کو ویسے بھی ننگا رکھنا درست نہیں۔ نماز میں تو قطعاً حرام و ناجائز ہوگا۔
یہ تو ہوا ستر مغلظ کے سلسلے میں جب کہ:
سر چونکہ بالا اتفاق اعضائے ستر میں سے نہیں، اس لئے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز بالا اتفاق ہوگی۔ اس کے لئے نہ بحث کی ضرورت ہے نہ احادیث کی سول کی ضرورت، جس طرح کوئی پنڈلی، پیٹ، پشت وغیرہ اعضاء ننگے ہوں تو نماز جائز ہے، بسر ننگے بھی درست ہے لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہئے۔ امام اگر نماز کے بعد پاؤں آسمان کی طرف کرے یا مقتدی کوئی ایسی حرکت کریں، حدیث میں اس سے رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی لیکن عظیم الشان ایسا کرنے سے پرہیز کریگا۔ ننگے سر کی عادت بھی قریباً اسی نوعیت کی ہے۔ جواز کے باوجود ایسی عادات عقل و فہم کے خلاف ہیں۔ عقلمند اور مہذب آدمی کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہا ہے۔ کوئی مرفوع حدیث صحیح میری نظر سے نہیں گزری، جس سے اس ننگے سر نماز کی عادت کا جواز ثابت ہو، خصوصاً با جماعت فرائض میں بلکہ عادت مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے۔
امام بخاری کے باب وجوب الصلاة فى الثياب وقول الله تعالى:
﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾
(7-الأعراف:31)
ومن صلى ملتحفا فى ثوب واحد الخ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
امام بخاری کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زینت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اعضاء ستر ڈھانپنے کے علاوہ اچھے کپڑوں میں نماز ادا کی جائے۔ عام ذہن کے لوگوں کو اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جائے تو سر ننگا رہے گا، حالانکہ ایک کپڑے کو اگر پوری طرح لپیٹا جائے تو سر ڈھکا جا سکتا ہے، اور پھر صحیحین و سنن کی متعدد احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی میں سر ننگا رکھنے کا ذکر نہیں، خصوصاً جس میں عادت اور کثرت عمل ثابت ہو۔ پھر احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صورت یا تو صرف اظہار جواز کے لئے ہے یا کپڑوں کی کمیابی کی وجہ سے ہے۔ ان حالات سے جواز یا اباحت تو ثابت ہو سکتی ہے، سنت یا استحباب ظاہر نہیں ہوتا۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ والا اثر جو، جس میں مختلف کپڑوں کا ذکر آیا ہے، اسے نقل کر کے لکھتے ہیں:
”اس سے کپڑوں کی قلت اور عدم استطاعت صراحتاً سمجھ میں آتی ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر پورے کپڑے میسر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے مسکنت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ “
اور آگے فتح الباری سے ایک سے زیادہ کپڑوں میں نماز مستحسن ہونے اور صاحب استطاعت کے لئے اس کے واجب و افضل ہونے، اور صرف ایک کپڑے میں نماز کو تنگ حالی پر محمول کرنے کا پتہ دینے والی تفریحات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
غرض کسی حدیث سے بھی بلا عذر ننگے سر نماز کو عادت اختیار کرنا ثابت نہیں۔ محض بے عملی یا بد عملی کی وجہ سے یہ رواج بڑھ رہا ہے، بلکہ جاہل تو اسے سنت سمجھنے لگے ہیں، العیاذ باللہ۔ اور نماز کے لئے ایک کی بجائے دو کپڑے پہننے اور ان سے زینت اختیار کرنے والی بعض روایات و آثار کو نقل کرتے ہوئے انہیں موئید ترین مجمل قرار دیا ہے۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں حافظ عینی نے مختلف مذاہب کے تذکرے میں جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ موصوف نے یہ ذکر کیا ہے:
”نماز ایک کپڑے میں درست ہے۔ لیکن جب وسعت ہو، کپڑے میسر ہوں تو پھر صرف ایک پر اقتصار و اکتفا مستحسن نہیں۔ “
اسی طرح المغنی ابن قدامہ سے بعض آثار و اقوال نقل کرنے کے بعد موصوف فرماتے ہیں:
”ان تمام گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلا وجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں۔ یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔ “
آگے چل کر اپنے اس جواب یا فتویٰ کے آخر میں مولانا محمد اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
”ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل و فراست سے متعلق ہے۔ اگر حسن لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ “
اس فتویٰ میں موصوف نے ایک اثر کی بات بھی کی ہے جس سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے، جسے ہم بعد میں ذکر کریں گے ان شاء اللہ۔
یہ اس تفصیلی فتویٰ کا اختصار ہے۔ جسے پوری تفصیل مطلوب ہو، وہ الاعتصام کا مذکورہ شمارہ یا مولانا علی محمد سعیدی کے مرتب کردہ فتاویٰ علمائے حدیث کی جلد چہارم کا صفحہ 286 تا 289 دیکھ لے۔
خلاصہ کلام:
اہل حدیث علماء کے تین فتوے ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ جن میں سے بعض میں احناف کی طرح ہی بلا وجہ ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور اسے فیشن کے طور پر ایسے کرنے والوں کو اور بھی برا سمجھا ہے۔ ہاں بوقت ضرورت ایسا کر لینے کے جواز و اباحت سے انہیں بھی انکار نہیں ہے۔ بلکہ صحیح بات پوچھیں تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کے دونوں فتووں پر بعض ملاحظات و مؤاخذات ممکن ہیں۔ لیکن ہم اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ان کے مفضل فتووں کے اس نچوڑ سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں، جو کہ دوسرے لفظوں میں مجلہ اہل حدیث سوہدرہ کا مختصر فتویٰ بن جاتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ننگے سر نماز ہو جاتی ہے، لیکن بطور فیشن و لا پرواہی اور تعصب کی بناء پر اسے مستقل اور ابد الآباد تک کے لئے عادت بنا لینا صحیح نہیں ہے۔
ننگے سر نماز کے جواز و عدم جواز کے سلسلے میں بریلوی، دیوبندی اور پھر اہل حدیث علماء کی تصریحات و فتاویٰ ذکر کئے جا چکے ہیں۔ جن کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عالم عرب کے دو ممتاز علماء کے خیالات بھی پیش کر دیئے جائیں۔
فقہ السنہ سید سابق:
نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالم اسلام میں جانی پہچانی کتاب فقہ السنہ کے مؤلف سید سابق نے اپنی اس شہرہ آفاق کتاب میں كشف الرأس فى الصلاة کے تحت ننگے سر نماز کا حکم بیان کیا ہے، جس کے ضمن میں لکھا ہے کہ ابن عساکر (تاریخ دمشق میں) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه
”بعض دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر اقدس سے ٹوپی اتار لیتے اور اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ “
اور احناف سے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک آدمی کے ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ فعل خشوع کے لئے ہو تو ان کے نزدیک مستحب ہے اور نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔
تو گویا سید سابق کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، جسے انہوں نے ابن عساکر کی روایت سے ثابت کیا ہے، بلکہ خشوع کی نیت سے ہو تو مستحب ہے، جیسا کہ انہوں نے احناف سے نقل کر کے اسے برقرار رکھا ہے، اور سر کو ڈھانپ کر نماز پڑھنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔
مواخذات و اعتراضات:
موصوف کے اس اقتباس میں تین باتیں کہی گئی ہیں اور ان تینوں پر ہی مؤاخذات و اعتراضات وارد ہوتے ہیں، مثلاً:
1. یہ جو کہا گیا ہے کہ اگر خشوع کی نیت سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ مستحب ہے، جیسا کہ فقہ السنہ کے علاوہ خود فقہ حنفی کی کتب سے بھی ہم ذکر کر آئے ہیں۔ اس استحباب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس مولانا محمد داؤد غزنوی کے فتویٰ میں ہم ذکر کر آئے ہیں کہ انہوں نے 29 جمادی الاولیٰ 1379ھ میں جو فتویٰ صادر فرمایا تھا، جسے انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے والد گرامی مولانا سید عبد الجبار غزنوی سے سنا تھا جو اس وقت تحریر سے بھی دس سال پہلے کی بات ہوگی، اس میں انہوں نے کہا تھا:
”اگر تعبد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہ ہوگا، اسلام میں ننگے سر رہنا سوائے احرام کے تعبد یا خضوع کی علامت نہیں۔ “
اور مولانا محمد اسماعیل سلفی نے بخاری شریف سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مختلف کپڑوں کے ناموں والا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کر کے اس سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا ہے:
”اگر پورے کپڑے میسر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے مسکنت (وخشوع) کا اجازہار نہیں کرنا چاہئے۔ “
اسی سلسلے میں فقہ السنہ کی تحقیق و تعلیق کے طور پر لکھی گئی کتاب تمام المنة میں علامہ ناصر الدین الالبانی نے لکھا ہے:
”خششوع کی نیت سے ننگے سر نماز کا استحباب دین میں ایک ایسے حکم کو جاری کرنا ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں سوائے رائے کے اور اگر یہ فعل حق ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور اختیار فرماتے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا ہوتا تو ضرور آپ سے منقول ہوتا اور جب اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ منقول نہیں ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ ایک خود ساختہ بدعت ہے۔ لہذا اس سے بچنا چاہئے۔ “
اب رہی یہ بات کہ ننگے سر نماز کو خششوع کی علامت قرار دینے کے لئے اور اس کے جواز و پیدا استحباب کے لئے اسے موسم حج میں بحالت احرام حاجی کے ننگے سر رہنے پر قیاس کیا جائے، جیسا کہ کتب فقہ میں وارد ہوا ہے (اور انصار السنہ مصر کے بعض اخوان نے بھی اس سے جواز پر استدلال کیا ہے) تو یہ قیاس درست نہیں بلکہ صاحب تمام المنة نے اسے قیاس باطل قرار دیا ہے۔ کیونکہ دورانِ احرام ننگے سر رہنا حج کا شعار ہے۔ اور یہ فعل مناسک حج میں سے ہے، جس میں دوسری کوئی عبادت اس کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اور اگر یہ قیاس صحیح ہوتا تو پھر لازماً یہ بھی کہنا پڑتا کہ ننگے سر نماز پڑھنا مستحب نہیں بلکہ واجب ہے، کیونکہ حج میں (دورانِ احرام) سر ننگا رکھنا واجب ہے۔ اور یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ جس کی رو سے اس قیاس سے رجوع کئے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں رہتا۔ ولعلهم يفعلون.
2. فقہ السنہ میں ایک دوسری بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔
مؤلف کا کسی بھی دلیل کے وارد ہونے کی مطلقا نفی کر دینا صحیح نہیں۔ البتہ اگر وہ کہتے ہیں کہ افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی خاص دلیل وارد نہیں ہوئی تو پھر ان کی یہ بات مسلم ہے۔ اور کسی خاص دلیل کا نہ ہونا کسی عام دلیل کے وارد ہونے کی نفی بھی نہیں کرتا، اور سر کو ڈھانپنے کی عام دلیل موجود ہے۔ اور اس قاعدے پر بھی تمام علماء اصول کا اتفاق ہے کہ جب کوئی معارض و مخالف دلیل نہ ہو تو عام دلیل بھی حجت ہوتی ہے۔
اور وہ عام دلیل یہ ہے:
”نماز کے لئے دور حاضر سے کچھ پہلے کا معروف اسلامی لباس پہن کر اس سے زینت اختیار کرنا، دور سلف صالحین میں ننگے سر رہنا، چلنا پھرنا اور اسی حالت میں ہی مساجد میں چلے جانا عرف عام میں اچھی حیثیت شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ اور یہ بات ان کے یہاں خلاف زینت تھی۔ “
نماز کے وقت زینت کو اختیار کرنے کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورہ الأعراف آیت 31 میں ارشاد الہی ہے:
﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾
(7-الأعراف:31)
”اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو۔ “
نماز کے وقت زینت اختیار کرنے کی ترغیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دلائی ہے۔ جیسا کہ طبرانی، اوسط، بیہقی اور معانی الآثار کے حوالہ سے ہم پہلے بھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ذکر کر چکے ہیں۔ جس میں ارشاد نبوی ہے:
إذا صلى أحدكم فليلبس ثوبيه فإن الله أحق من تزين له
”تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو اپنے دونوں کپڑے پہنے، بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے۔ “
اس آیت و حدیث اور سلف صالحین کے عرف عام میں ننگے سر نہ پھرنے سے عمامہ و ٹوپی کی فضیلت یا کم از کم ننگے سر نماز کی نسبت اس کی افضلیت کا پتہ چلتا ہے۔ اور یہ عام دلیل ہے۔ جب کہ عمامہ کی فضیلت والی خاص احادیث ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ سب واقعی موضوع و من گھڑت ہیں۔
ننگے سر نماز کے دلائل کی استنادی حیثیت:
فقہ السنہ کے مؤلف سید سابق کے اقتباس پر وارد ہونے والے مواخذات و اعتراضات میں سے دو ذکر کئے گئے ہیں۔
پہلی دلیل:
جب کہ اس اقتباس میں ایک تیسری بات بھی مذکور ہے کہ موصوف نے ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل کے طور پر (تاریخ دمشق) ابن عساکر کے حوالہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ روایت پیش کی ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ اپنی ٹوپی اتار کر اسے اپنے سامنے بطور سترہ رکھ لیتے تھے۔ “
اس روایت سے دو وجوہ کی بناء پر ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
اولاً : اس لئے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صاحب تمام المنة کے بقول اس کے ضعیف ہونے پر دلالت کرنے کے لئے یہی امر کافی ہے کہ اسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ اور انہوں نے سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة (2538) میں اس کا سبب بھی بیان کیا ہے۔
ثانیاً : اس لئے بھی اس روایت سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال صحیح نہیں، کیونکہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس روایت کے ظاہری الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی جسے بطور سترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے رکھ لیتے اور سترہ کے بارے میں وارد شدہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سر کے ڈھانپنے سے بھی زیادہ اہم فعل ہے۔
اور وہ احادیث بھی اپنے موقع پر ذکر کی جائیں گی، ان شاء اللہ۔ تو گویا علی وجہ النظر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں مذکور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل یعنی سر اقدس سے ٹوپی اتار کر اسے بطور سترہ اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھنا ایک ایسی ضرورت کے لئے تھا جو کہ سر ڈھانپنے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ لہذا اس سے مطلق جواز اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری دلیل:
تقریباً اسی حدیث سے ملتا جلتا ایک اثر سنن ابی داؤد میں ہے، اس سے بھی ننگے سر کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔ اس اثر میں عبد اللہ بن محمد زہری بیان کرتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے فرمایا:
رأيت شريكا صلى بنا فى جنازة العصر فوضع قلنسوته بين يديه يعني فى فريضة
”میں نے شریک کو دیکھا کہ انہوں نے ایک جنازہ کے موقع پر ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور اپنی ٹوپی فرض نماز پڑھاتے وقت اپنے سامنے رکھ لی۔ “
اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ اثر بھی کئی وجوہ کی بناء پر ناقابل تجویز و استدلال ہے، جیسا کہ مولانا اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
اولاً اس لئے کہ یہ نہ تو مرفوع حدیث ہے کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل بیان ہوا ہو، اور نہ ہی یہ کسی صحابی کا اثر ہے، بلکہ یہ صحابہ کے بعد والوں میں سے کسی کا اثر ہے۔
ثانیاً یہ کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ شریک کون بزرگ ہیں، یہ شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر تابعی ہیں یا کہ شریک بن عبد اللہ خصّی تبع تابعی ہیں۔ اور ان دونوں میں سے چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو، دونوں میں ہی کم و بیش ضعف پایا جاتا ہے۔ لہذا یہ اثر بھی ضعیف ہوا۔ اور پھر یہ کہ ان کا اپنا عمل ہے جو کسی طرح بھی قابل محتج نہیں۔
ثالثاً : اس لئے بھی اس اثر کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ امام ابو داؤد نے اس اثر کو اپنی سنن کے باب الخط إذا لم يجد عصا کے تحت وارد کیا ہے کہ جب عصا نہ ہو تو سترہ کے لئے لکیر کھینچنے کا بیان۔ امام صاحب کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ضرورتاً سر ننگا رکھا گیا ہے کیونکہ جب انہیں سترہ کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو انہوں نے سترہ کا کام ٹوپی سے لے لیا۔ ضرورت اور عذر سے سر ننگا رکھا جائے تو اس میں بحث نہیں۔ بحث اس میں ہے کہ فیشن اور عادت کے طور پر نماز میں سر ننگا رکھنا کہاں تک درست ہے؟
تیسری دلیل:
ایسے ہی ایک تیسری حدیث بھی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس میں تو ننگے سر مساجد میں آنے کے لئے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ الکامل لابن عدی میں دو طریق سے اور تاریخ دمشق ابن عساکر میں ایک طریق سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے یعنی اس کلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جس میں ہے:
ائتوا المساجد حسرا معصبين فإن العمائم تيجان المسلمين
”مساجد میں ننگے سر آؤ اور پگڑیاں باندھ کر آؤ۔ بے شک پگڑیاں تو مسلمانوں کے تاج ہیں۔ “
اور تاریخ ابن عساکر میں اس کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے، وہاں ہے:
ائتوا المساجد حسرا ومقنعين فإن ذلك من سيما المسلمين
”مساجد میں ننگے سر آؤ یا ٹوپی پہن کر، یہ ٹوپی پہننا ایک مسلمانوں کی نشانی ہے۔ “
اور معنی اس کا بھی تقریباً وہی ہے۔ اس روایت کے دونوں طرح کے الفاظ سے جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے کہ بیک وقت دو دلیلیں لی جا سکتی ہیں۔ ایک ننگے سر مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کے جواز کی، دوسری اس کے سراسر برعکس پگڑی یا عمامہ باندھنے کی فضیلت کی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے یہ روایت کسی ایک پر بھی استدلال کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ محدثین کرام نے اسے سخت ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے کیونکہ اس روایت کے دونوں طرق میں ایک راوی میسرہ بن عبد ربہ ہے جو خود اس بات کا معترف ہے کہ وہ وضاع ہے۔ یعنی روایتیں گھڑتا ہے۔ اور علامہ عراقی نے اسے متروک قرار دیا ہے۔
اس کے ابن عساکر والے طریق میں جو کہ الکامل میں بھی ہے، اس میں ایک راوی مبشر بن عبید ہے جس کے بارے میں ابن عدی نے کہا ہے:
مبشر هذا بين الأمر فى الضعف وعامة ما يرويه غير محفوظ
”یہ مبشر ضعیف ہونے میں واضح ہے، اور اس کی مرویات عموماً غیر محفوظ ہیں۔ “
اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
كان يضع الحديث
”وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ “
اور الضعفاء والمتروكين (3/30) میں امام ابن حبان نے کہا ہے:
يروي عن الثقات الموضوعات لا يحل كتابة حديثه إلا على جهة التعجب
”یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت احادیث بیان کرتا ہے۔ اس کی مرویات کو لکھنا بھی جائز نہیں سوائے پر سبیل تعجب کے۔ “
یہ ہے اس حدیث کی حقیقت، اب بھلا ایسی حدیث سے استدلال کیسے روا ہو سکتا ہے۔
تمام المنہ شیخ البانی رحمہ اللہ :
عرب علماء سے دوسرے مشہورومعروف عالم اور محدث کبیر شیخنا صرالدین الالبانی نے اپنی کتاب تمام المنة میں ننگے سر نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ چنانچہ موصوف اپنی اس کتاب کے صفحہ 64 پر لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ زیر بحث کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کیونکہ یہ بات مسلمہ و طے شدہ ہے کہ مسلمان کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ صلاح میں سب سے اکمل و احسن حیثیت و صورت میں داخل ہو کیونکہ مجمع الطبرانی، اوسط، بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
فإن الله أحق من تزين له
”بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحقا ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے۔ “
سلف صالحین کے عرف عامہ میں یہ عندد صورت نہا شمار نہیں کی گیی کہ ننگے سر رہنے اور ایسے ہی چلنے پھرے سے کہا جائے کہ اس طرح ہی عبادت گاہوں (مساجد) میں داخل ہوں۔ بلکہ یہ تو ایک اجنبی و مغربی عادت ہے جو بکثرت اسلامی ممالک میں اس وقت سے در آئی ہے، جب سے وہ ان ممالک میں (استعمار کی حیثیت سے صوت کر) داخل ہوئے، اور اپنے ساتھ کتنی ہی فاسد و بدترین عادات لائے۔ اور کہ ناکہ مسلمانوں نے تہائی کی نقل و پیروی شروع کر دی، اس عادت اور ایسی ہی دیگر عادت بد کو اپنانے کی وجہ سے اہل نساء سبحان اپنی اپنی اسلامی تشخص ہی کھو بیٹھے ہیں۔ جب کہہ ہے کہ عارضی ہنگامی صورت حال اس لأق نہیں کہاں اس سے کے ناکہ اسے اپنے گذشتہ اور از دست رفتہ اسلامی عرف و شخص کی مخالفت کا ذریعہ بنایا جائے۔
اس کے علاوہ موصوف نے اس کتاب کے اسی مقام پر ننگے سر ناز کے رہ کے دلائل پرت کرنے والی رہائی سے ای سے رہائی کو ضعیف اور دکھ سے نہ کہ رہائی کو سخت نہ کہ فہرہ بسرے کہ رہ من کہ راتتت قرار دیا ہے۔
ایک عجوبہ:
علامہ موصوف نے ہی اپنی دوسری کتاب سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة میں جہاں عمامہ کی فضیلت پر دلالت کرنے والی یکے بعد دیگرے تین من گھڑت روایات نقل کی ہیں، وہاں ان کے بعد ان کے برے اثرات بھی ذکر کئے ہیں۔ وہاں ایک بات یہ بھی لکھی ہے: دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی پر اتنی شدت کے ساتھ عمل کرنے والے لوگوں کی ایک بات انتہائی قابل تعجب ہے کہ وہ داڑھی مونڈ کر یا منڈوانے کا گناہ تو مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں، اور جب کہ ناز کے رے کہ کھڑے ہت ہیں رے کہ رہائیں اسے اپکی ارتکاب گناہ کا کہی رہ شعر تکہ رہ ہاتا۔ اور نہ ہائی رہ اس سے اپکی کہ ناز مین کھ رہ کمی میحاس کر سکت ہیں رہ۔ لیکن ٹوپی یا پگڑی کے معاملہ میں سستی ہرگز نہیں کرتے، اس طرح ان لوؤں نے شریعت کے احکام کو الٹ کر رکھ دیا ہے کہ جو چیز اللہ کی طرف سے حرام تھی اسے مباح کر لیا، اور جو مباح تھی اسے واجب یا قریب واجب کر لیا ہے۔
ان الفاظ سے موصوف کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک عمامہ و دستار واجب نہیں بلکہ نماز ننگے سر بھی مباح و جائز ہے۔ لیکن یہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ اور افضل و اولی یہی ہے کہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے.
افشاء سلام کا حکم و فضیلت اور موانع :
اسی پر بس نہیں بلکہ موصوف نے اسی مقام پر اس بات کو بڑے زور دار طریقے سے بیان کیا ہے کہ عمامہ و ٹوپی کی ضرورت جتنی نماز کے لئے ہے، نماز سے باہر اس کی اس سے بھی زیادہ سزت ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کا شعار ہے جو انہیں غیر مسلموں سے امتیازی حیثیت دیتا ہے۔ خصوصاً دورِ حاضر میں جب کہ مومن و کافرسب کے لباس ( اور وضع قطع ) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں یہاں تک کہ اب تو یہ بھی مشکل ہو گیا ہے کہ مسلمان جانے پہچانے یا انجانے ہر طرح کے مسلمانوں میں دعاء سلام کو عام کر سکے ۔
گویا نہ تو مسلمان کے چہرے پر اسلامی شناخت یعنی داڑھی ہوتی ہے اور نہ ہی سر پر ٹوپی یا عمامہ اور لباس بھی ایک جیسے ہو گئے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں تو سلام کے عام کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ آ رہی ہے۔ جو کوئی جانتا ہے اسے تو سلام کہہ لیتا ہے۔ لیکن جسے کوئی نہیں جانتا اسے سلام کہنے میں یہ امر مانع ہوتا ہے کہ یہ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ کیونکہ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے؟ اور کسی قسم کا اسلامی شعار اس پر واضح نہیں ہوتا۔ اور اب اگر وہ غیر مسلم ہے اور اسے سلام کہہ دیں تو اس ارشاد رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہوگی، جو صحیح مسلم، ابو داؤد اور ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لا تبدؤوا اليهود ولا النصارى بالسلام
”کہ (غیر مسلم) یہود و نصاریٰ کو سلام کہنے میں پہل مت کرو“
اور اگر اسے عدم شناخت کی وجہ سے سلام نہیں کہتا، حالانکہ وہ مسلمان ہے تو دوسرے ارشاد رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوتی ہے جو کہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد، الادب المفرد، ابن حبان اور ابو عوانہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس میں بہترین اسلام کیا ہے؟ کے جواب میں ارشاد ہے:
تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
”کھانا کھلاؤ اور سلام کہو چاہے تم کسی کو جانتے ہو یا نہیں پہچانتے ہو۔“
یہ صورت حال مسلمانوں کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ جس میں عمامہ و ٹوپی کا عام حالات میں استعمال نہ کرنا بھی اہم رول ادا کر رہا ہے۔ اور داڑھی منڈوانا اور مغربی طرز کے لباس کا عام استعمال اس پر مستزاد ہے۔ اور یہ سب عوامل مل کر افشائے سلام کے عمل خیر و مطلوب میں روک بن رہے ہیں۔ جب کہ افشائے سلام یعنی ہر کس و ناکس کو سلام کہنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے، جیسا کہ الادب المفرد امام بخاری، صحیح مسلم، ابو داؤد و ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ولا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم، أفشوا السلام بينكم
”تم اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جسے اپنانے سے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو عام کرو۔ “
اور بخاری و مسلم کی ایک متفق علیہ حدیث میں ابو عمارہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبع بعيادة المريض، واتباع الجنائز وتشميت العاطس ونصر الضعيف وعون المظلوم وإفشاء السلام وإبرار المقسم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات کاموں کا حکم فرمایا:
1. بیمار کی عیادت و تیمارداری کا۔
2. جنازے کے پیچھے چلنے (یعنی جنازہ پڑھنے) کا۔
3. چھینک مارنے پر الحمد للہ کہنے والے کا (يرحمك اللہ کہہ کر جواب دینے) کا۔
4. ضعیف و کمزور کی مدد کرنے کا۔
5. مظلوم کے ساتھ تعاون کرنے کا۔
6. سلام کو عام کرنے کا۔
7. اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا۔
یعنی کسی سے جو کام کروانے کے لئے کوئی قسم کھائے وہ کام کر دینا تا کہ اس کی قسم پوری ہو جائے۔
اسی طرح الادب المفرد امام بخاری، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں ابو یوسف حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
يا أيها الناس أفشوا السلام وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام وصلوا والناس نيام
”اے لوگو! سلام کو عام کرو، اور (محتاجوں کو) کھانا کھلاؤ، اور صلہ رحمی کرو، اور راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، نمازیں پڑھو (شب زندہ داری کرو)۔ “
اور جب تم یہ کام کرو گے:
تدخلوا الجنة بسلام
”سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ “
الادب المفرد امام بخاری، ترمذی، مستدرک حاکم اور صحیح ابن حبان میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعبدوا الرحمن، وأطعموا الطعام وأفشوا السلام
”اللہ کی عبادت کرو، اور (محتاجوں کو) کھانا کھلاؤ، سلام عام کرو۔ “
اگر تم ایسا کرو گے تو:
تدخلوا الجنان
”تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ “
سلام کہنے کی فضیلت و برکت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہو جاتا ہے جس میں ابو داؤد، ترمذی اور نسائی کی روایت کے مطابق حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: السلام عليكم، ورد عليه ثم جلس، فقال النبى صلى الله عليه وسلم عشر
”ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا السّلام عليكم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ شخص بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دس نیکیاں۔ “
پھر دوسرا آدمی آیا اس نے کہا، السلام عليكم ورحمة الله، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا، پھر وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیس نیکیاں۔ اور پھر ایک اور آدمی آیا تو اس نے کہا، لسلام عليكم ورحمة الله وبركاته، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیس نیکیاں۔
الادب المفرد امام بخاری اور صحیح ابن حبان میں یہی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ جیسے جیسے کوئی سلام کے الفاظ میں اضافہ کرتا جائے تو اس کی نیکیوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں نیکیوں کا لفظ اور تعداد دونوں وارد ہوئے ہیں اور یہ تین کلمات صحیحین میں ثابت ہیں۔
جب کہ بعض اضافی کلمات کی تفصیل فتح الباری (11/3، 36/7، 38) میں موجود ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ سلام کہنے کی کس قدر فضیلت و ثواب ہے جس سے ہمیں کسی حد تک کبھی محض اس لئے محروم ہونا پڑتا ہے کہ مسلمان کے اسلامی شعائر کو ترک کرنے کی وجہ سے ہم اسے پہچان نہیں پاتے۔ وہ شعار جن میں سے ایک عمامہ یا ٹوپی بھی ہے۔
جہاں مسلم و کافر ملے جلے بیٹھے ہوں:
یہاں ایک مسئلہ ذکر کر دینا مناسب لگتا ہے کہ اگر کہیں آپ دیکھتے ہیں کہ مسلم و کافر ملے جلے بیٹھے ہیں، یا کام میں لگے ہوئے ہیں تو آپ کو مسلمانوں کی نیت سے ضرور سلام کہہ لینا چاہئے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور ترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم مر على مجلس فيه اختلاط من المسلمين والمشركين عبة الأوثان واليهود، فسلم عليهم النبى صلى الله عليه وسلم
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بتوں کے پجاری اور یہود سب ملے جلے بیٹھے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا۔“
عمومی لفظ کے ساتھ سلام کہنا مگر نیت صرف مسلمانوں کی کرنا، اس کی صراحت تو امام نووي نے کی ہے اور یہ اس بناء پر کہا کہ غیر مسلم کو سلام کرنے میں ابتداء کرنا جائز نہیں ہے (جیسا کہ حدیث ذکر کی جا چکی ہے) اور امام ابن العربي فرماتے ہیں کہ اگر اہل سنت و اہل بدعت، عدل پسند اور ظالم یا محب اور مبغض بیٹھے ہوں تو بھی اوّل الذكر لوگوں کی نیت کر کے عمومی الفاظ کے ساتھ سلام کہنا چاہئے۔
سلام کی فضیلت اور متعلقہ چند امور تو ہم نے محض موانع کا ذکر کرنے کی مناسبت سے ذکر کر دیے ہیں، ورنہ سلام سے متعلقہ احکام و مسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن سر دست وہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ لہذا یہاں ہم ان سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ نے موقع بخشا اور توفیق سے نوازا تو ان مسائل کی تفصیل بھی پیش کر دیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ٹوپی و عمامہ یا کوئی ایک:
یہاں ایک اور بات بھی آپ کے گوش گزار کر دیں کہ بعض لوگ عام حالات میں تو کیا خاص طور پر دوران نماز بھی عمامہ یا ٹوپی نہیں رکھتے بلکہ ایسے لوگوں کی کثرت ہو رہی ہے۔ جب کہ ادھر کچھ لوگ وہ ہیں جو بال کی کھال اتارنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ اور یہ پوچھتے ہیں کہ نیچے ٹوپی اور اس کے اوپر عمامہ یا پگڑی یا دونوں بیک وقت ضروری ہیں یا دونوں یعنی عمامہ و ٹوپی میں سے کوئی ایک چیز بھی کافی ہے؟ اور کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بغیر عمامہ کے ٹوپی پہنی ہے یا نہیں؟ اور عام لوگ تو عموماً صرف ٹوپی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ٹوپی کے اوپر لازم عمامہ باندھو، کیونکہ صرف ٹوپی پہننا مکروہ ہے۔ اور ان کا استدلال رکانہ بن عبد یزید ہاشمی سے ابو داؤد، ترمذی اور بیہقی کی اس مرفوع حدیث سے ہوتا ہے، جس میں ہے:
إن فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس
”ہمارے اور مشرکین کے مابین فرق یہ ہے کہ ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔“
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نماز اور نماز سے باہر ہمیشہ یا کبھی صرف ٹوپی کا استعمال بلاشبہ جائز و مباح ہے۔ اس پر پگڑی باندھنا نہ فرض و واجب ہے نہ سنت مؤکدہ۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب اور اس کی سند کو ليس بالقائم قرار دیا ہے۔ اور متفقہ مشکوۃ میں شیخ البانی نے ان کی تصدیق کی ہے۔ اور ماہنامہ محدث دہلی کی جلد 3، شمارہ 3 میں صادر شدہ ایک فتویٰ کی رو سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اور اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو ابن الملک وغیرہ اہل حدیث کے بیان کردہ معنی کے مطابق اس حدیث سے بھی (عمامہ کے بغیر) صرف ٹوپی پہننے کی کراہت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے برعکس علامہ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی استعمال فرماتے تھے۔ چنانچہ علامہ موصوف اپنی بلند پایہ کتاب زاد المعاد فی ہدی خیر العباد میں فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمامہ تھا جسے ‘سحاب’ کا نام دیا گیا تھا۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنا دیا تھا۔ “آگے موصوف لکھتے ہیں:
وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة، وكان يلبس القلنسوة بغير العمامة، وكان يلبس العمامة بغير قلنسوة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ عمامہ (سحاب) باندھتے تھے، اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمامہ کے بغیر صرف ٹوپی بھی پہنتے تھے اور آپ صلی اللہ ٹوپی کے بغیر بھی عمامہ باندھا کرتے تھے۔ “
علامہ ابن قیم کی تائید بعض آثار سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً صحیح بخاری میں امام ابو اسحاق کا ایک اثر ہے جو کہ امام ابو حنیفہ کے استاد ہیں اور انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کی ہے۔ بخاری شریف میں ان کے بارے میں مذکور ہے:
وضع أبو إسحاق قلنسوته فى الصلاة ورفعها
”ابو اسحاق نے اپنی ٹوپی کو حالتِ نماز میں نیچھا رکھا اور اسے اُٹھایا (گویا کہ وہ کبھی صرف ٹوپی سے نماز ادا فرماتے تھے)۔ “
صرف ٹوپی کے استعمال کے جواز پر بعض اہل علم نے (جنہیں مفتی محدث دہلی وغیرہ نے) کچھ مرفوع احادیث سے بھی استدلال کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ضعیف السند ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہیں۔
مثلاً ترمذی و مسند احمد میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث ہے، جس میں ہے:
الشهداء أربعة رجل مؤمن جيد الإيمان، لقي العدو فصدق الله حتى قتل، فذلك الذى يرفع الناس إليه أعينهم يوم القيامة هكذا
”شہید چار ہیں۔ ایک وہ مومن کہ جو بہترین ایمان والا ہے۔ وہ میدانِ کارزار میں دشمن سے برسرپیکار ہوا اور (اللہ کی وحدانیت) کی تصدیق کی۔ یہاں تک کہ جان دے دی۔ یہی وہ شہید ہے جسے قیامت کے دن اتنا عظیم و رفیع مرتبہ ملے گا کہ لوگ اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھیں گے۔ “
اور ترمذی میں یہ الفاظ بھی ہیں:
ورفع رأسه حتى سقطت قلنسوته
”اور (رفعت و بلندی بتانے کے لیے) انہوں نے اپنا سر اتنا اُٹھایا کہ سر سے ٹوپی گر گئی۔ “
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرنے والے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے راوی ابو یزید خولانی بیان کرتے ہیں:
فما أدري أقلنسو عمر أراد أم قلنسوة النبى صلى الله عليه وسلم
”میں نہیں جانتا کہ حضرت فضالہ کی مراد حضرت عمر رضی اللہ بنہ کی ٹوپی کا گرنا تھا یا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ “
آگے دوسرے تین آدمیوں کا تذکرہ بھی ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب قرار دیا ہے۔
جبکہ شیخ ناصر الدین البانی نے امام سیوطی کی الجامع الصغير کی جو صحیح و ضعیف، دو قسموں میں تقسیم کی ہے، تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے ضعیف الجامع (3/2/ 259) میں ذکر کیا ہے۔ اسیسی ایک دوسری حدیث الرويانی اور ابن عساکر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يلبس القلائس تحت العمائم، ويلبس بغير العمائم، ويلبس العمائم بغير قلائس، وكان يلبس القلائس اليمنية
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے نیچے ٹوپی پہنتے تھے اور بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی۔ اور ٹوپی کے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی ٹوپیاں بھی پہنا کرتے تھے۔“
اس حدیث کو بھی امام سیوطی الجامع الصغير میں لائے ہیں اور اسے صحیح و ضعیف میں الگ الگ کرنے والے محدث موصوف نے اسے سخت ضعیف قرار دیتے ہوئے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔
المختصر :
یہ کہ علامہ ابن قیم کی تحقیق کی رو سے صرف عمامہ یا پگڑی باندھیں یا صرف ٹوپی پہنیں یا دونوں کو بیک وقت اوپر نیچے استعمال کریں، ہر طرح جائز ہے۔ ممانعت نہیں اور مذکورہ موضوع ختم کرتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ، بخاری و مسلم کی ایک ذکر کردہ حدیث (الارواء 304/1) کی رو سے جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں کندھوں کے ننگے رکھنے کی ممانعت نبی تنزیہی ہے، تحریمی نہیں یعنی کندھوں کا ڈھانپا ہوا ہونا بہتر ہے، فرض و واجب نہیں۔ اور المغنی ابن قدامہ میں مذکور ہے کہ امام ابو حنیفہ، مالک اور شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن امام احمد بن حنبل کے نزدیک کندھوں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔ البتہ اگر کپڑا چھوٹا ہو، شرمگاہ یعنی مقامات ستر کی ستر پوشی کرے اور ننگے کندھوں سے نماز پڑھ لے۔
اب رہا معاملہ نماز میں مردوں کے سر ڈھانپنے کا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اول تو دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی عام حالات میں بھی استعمال کریں، کہ یہ شعار مسلم ہے اور جب عام حالات میں اسے ترک کر رکھا ہے تو کم از کم نماز کے وقت تو اچھی سی ٹوپی پہن لیا کریں۔ کیونکہ یہ انسان کے لیے زینت ہے مگر ہمارے ممالک کی مساجد میں یا پھر ہمارے ہی لوگوں کی لائی ہوئی اور ان مساجد میں رکھی گئی ٹوپیاں ہرگز زینت نہیں ہوتیں۔ ان کی نسبت تو ننگے سر سے نماز پڑھ لینا ہی بہتر است۔ کیونکہ ننگے سر بھی نماز ہو جاتی بنتی، سر کو ڈھانپنا محض زینت و آدابِ نماز کا ایک تقاضا ہے، کوئی فرض و واجب یا سنت مؤکدہ بھی نہیں۔ لہذا اگر کوئی ننگے سر سے رازہ پڑھ رہا ہے تو اس کے گلے پڑنا، اس کے سر پر ٹوپی رکھنا یا اسے خشمگین نگاہوں سے گھورنا ہرگز درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بات کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے (آمین) والله الموفق
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته