ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام
سوال
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان، بالخصوص نوجوان، فریضۂ حج کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتے ہیں اور دنیاوی مشاغل کی وجہ سے اس سے غفلت برتتے ہیں۔ ایسے افراد کے بارے میں آپ کی کیا نصیحت ہے؟ اسی طرح بعض والدین اپنے بیٹوں کو حج پر جانے سے روک دیتے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں انہیں سفر میں کوئی نقصان نہ ہو جائے، حالانکہ ان بیٹوں پر حج کی تمام شرائط لاگو ہو چکی ہوتی ہیں۔ تو ایسے والدین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس صورت میں بیٹوں کے لیے اپنے والدین کی اطاعت کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- یہ بات واضح اور مسلمہ ہے کہ حج اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور دین کی عظیم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔
- لہٰذا کسی بھی شخص کا اسلام حج کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، بشرطیکہ اس شخص پر حج فرض ہونے کی تمام شرائط پوری ہو چکی ہوں۔
حج کی فرضیت میں تاخیر کیوں درست نہیں؟
- جس شخص پر حج واجب ہو چکا ہو، اس کے لیے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں۔
- اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل فوراً ہونا چاہیے۔
انسان کو نہیں معلوم کہ کل اس کے ساتھ کیا ہوگا؛ ممکن ہے:
- وہ کل فقیر ہو جائے،
- یا بیمار پڑ جائے،
- یا دنیا سے رخصت ہو جائے۔
والدین کی طرف سے بیٹوں کو روکنا:
والدین کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو حج کی ادائیگی سے روکیں:
- جبکہ ان بیٹوں پر حج کی تمام شرائط پوری ہو چکی ہوں۔
- اور وہ دین و اخلاق کے اعتبار سے قابل اعتماد رفقاء کے ساتھ سفر کر رہے ہوں۔
بیٹوں کا والدین کی اطاعت:
- اگر حج واجب ہو چکا ہے تو بیٹوں کے لیے والدین کی اطاعت میں حج ترک کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ:
- "خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں"۔
البتہ اگر والدین کوئی شرعی عذر پیش کریں:
- تو ایسے عذر کے موجود ہونے کی صورت میں اس کے زائل ہونے تک حج مؤخر کیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب