احرام سے قبل یا بعد حج چھوڑنے کا حکم کیا ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

جس شخص نے حج کا ارادہ کیا اور پھر باز آ گیا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص حج کا ارادہ کرے لیکن ابھی احرام نہ باندھا ہو، تو ایسی صورت میں اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوتا۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ چاہے تو سفر جاری رکھے یا واپس گھر لوٹ جائے۔ البتہ اگر اس پر حج فرض ہو چکا ہے، تو پھر لازم ہے کہ وہ اس فریضے کو جلد از جلد ادا کرے۔ اگر کوئی رکاوٹ پیش آ جائے، تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا۔

احرام کے بعد رکاوٹ پیش آنے کی صورت میں

اگر احرام باندھنے کے بعد کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے، تو دو صورتیں ہیں:

➊ احرام کے وقت شرط لگانا

اگر احرام باندھتے وقت اس نے یہ شرط لگا دی ہو کہ:

"اگر مجھے کوئی رکاوٹ پیش آ گئی تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا جہاں تو (اے اللہ) مجھے روک دے گا”

تو ایسی صورت میں وہ شخص احرام کھول کر حلال ہو جائے گا اور اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا۔

➋ شرط نہ لگانا

اگر اس نے ایسی کوئی شرط نہ رکھی ہو، تو پھر دو ممکنات ہیں:

اگر رکاوٹ کے جلد دور ہونے کی امید ہو، تو وہ انتظار کرے، اور جب رکاوٹ دور ہو جائے تو اپنا حج مکمل کرے۔

اگر رکاوٹ وقوفِ عرفہ سے پہلے ختم ہو جائے، تو وہ عرفہ میں وقوف کرے اور اس کا حج مکمل ہو جائے گا۔

اگر رکاوٹ وقوفِ عرفہ کے بعد ختم ہو اور وہ عرفہ میں وقوف نہ کر سکا ہو، تو اس کا حج فوت ہو گیا۔ ایسی صورت میں وہ عمرہ کرے اور احرام کھول دے۔

اگر یہ حج فرض تھا، تو اسے آئندہ سال قضا دینا لازم ہوگا۔

اگر اسے رکاوٹ کے جلد ختم ہونے کی امید نہ ہو, تو وہ احرام کھول کر حلال ہو جائے اور ایک قربانی کا جانور ذبح کرے۔

دلیلِ شرعی

اس حکم کی بنیاد قرآنِ مجید کی اس آیت کے عمومی مفہوم پر ہے:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ…﴿١٩٦﴾… سورة البقرة

"اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو اور اگر (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو)۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1