سوال
ایک شخص نے میقات سے حج کا احرام باندھا، لیکن جب وہ مکہ مکرمہ پہنچا تو انکوائری آفس نے اسے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا کیونکہ اس کے پاس پروانۂ حج موجود نہیں تھا۔ ایسی صورتِ حال میں اس شخص کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کسی شخص کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا جائے اور اس کے لیے داخلہ ممکن نہ رہے، تو ایسی حالت میں وہ محصور شمار ہوگا۔ اس صورت میں شرعی حکم درج ذیل ہے:
محصور کے لیے شرعی حکم:
✿ محصور ہونے کی حالت میں، وہ شخص احصار کی جگہ پر ایک قربانی کرے۔
✿ قربانی کے بعد، وہ احرام کھول کر حلال ہو جائے یعنی احرام کی حالت ختم کر دے۔
حج فرض تھا یا نفل؟
✿ اگر یہ حج فرض تھا (یعنی حج اسلام تھا)، تو اسے بعد میں دوبارہ ادا کرنا ہوگا، لیکن قضا کے طور پر نہیں بلکہ اصل حکم کے تحت ہی اسے بجا لانا ہوگا۔
✿ اور اگر یہ حج نفل تھا، تو راجح قول کے مطابق اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہے۔
غزوۂ حدیبیہ سے استدلال:
یہی معاملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر پیش آیا تھا، جب انہیں مکہ مکرمہ میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس عمرہ کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا۔
شریعت کا واضح حکم:
محصور کے لیے قضا حج یا عمرہ کے وجوب کا حکم نہ قرآن مجید سے ثابت ہے اور نہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ بلکہ صرف درج ذیل حکم ثابت ہے:
﴿فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ﴾
(البقرة: 196)
’’اور اگر رستے میں روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کر دو۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں صرف قربانی کا ذکر ہے، کسی اور چیز کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔
عمرۃ القضا کی وضاحت:
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جس عمرہ کو "عمرۃ القضا” کہا جاتا ہے، اس کی نسبت قضا کے معنی فوت شدہ چیز کے بدلے میں نہیں، بلکہ معاہدہ کے مفہوم میں ہے۔ کیونکہ اس عمرہ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے معاہدہ فرمایا تھا، اس لیے اسے عمرۃ القضا کہا گیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میری معلومات کے مطابق صحیح ہے، اور اللہ ہی درست جاننے والا ہے۔)