سوال
جو شخص رات کے وقت منیٰ میں آئے اور وہاں جگہ نہ پائے، پھر نصف رات منیٰ میں گزارنے کے بعد حرم میں چلا جائے، تو اس کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس معاملے میں شرعی حکم یہ ہے:
✿ اگرچہ اس طرح کا عمل جائز ہے، مگر ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔
✿ حاجی کو ایامِ تشریق (یعنی 11، 12 اور 13 ذوالحجہ) کی راتیں اور دن منیٰ میں گزارنے چاہییں۔
منیٰ میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں کیا کیا جائے؟
✿ اگر کسی حاجی کو منیٰ میں جگہ نہ ملے، تو اسے چاہیے کہ:
❀ آخری خیمے کے قریب اپنی جگہ بنالے، اگرچہ وہ جگہ منیٰ کی حدود سے باہر ہی کیوں نہ ہو؛
❀ یہ شرط ہے کہ حاجی نے پوری کوشش کے باوجود منیٰ میں جگہ تلاش کی ہو اور پھر بھی نہ ملی ہو۔
بعض اہل علم کا موقف:
✿ ہمارے زمانے کے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ:
❀ اگر کسی شخص کو منیٰ میں جگہ نہ ملے تو اس پر منیٰ میں رات گزارنے کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔
❀ ایسے شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ رات مکہ یا کسی دوسری جگہ پر گزار لے۔
✿ ان علماء نے اس صورت کو یوں قیاس کیا ہے:
❀ جیسے اگر وضو کے اعضا میں سے کوئی عضو موجود نہ ہو تو اس کا دھونا ساقط ہو جاتا ہے؛
❀ ویسے ہی اگر حاجی منیٰ میں جگہ نہ پائے تو منیٰ میں رات گزارنے کا حکم بھی ساقط ہو جائے گا۔
اس قیاس پر تنقید:
✿ یہ قیاس محل نظر ہے کیونکہ:
❀ وہ عضو جس سے وضو کا حکم متعلق ہوتا ہے، جب وہ موجود ہی نہ ہو تو اس کا دھونا ساقط ہوتا ہے؛
❀ مگر یہاں تو منیٰ موجود ہے، اور وہاں رات گزارنے کا شرعی مقصد یہ ہے کہ:
◈ تمام حاجی متحد ہو کر امت واحدہ کا مظاہرہ کریں؛
◈ اجتماعیت اور اتحاد کا اظہار ہو۔
بہتر طرز عمل:
✿ لہٰذا اگر کسی حاجی کو منیٰ میں جگہ نہ ملے تو:
❀ وہ آخری خیمے کے پاس رات گزارے؛
❀ تاکہ وہ دیگر حاجیوں کے ساتھ رہ کر اجتماعی ماحول میں شامل رہے۔
مثال سے وضاحت:
✿ یہ معاملہ اس طرح ہے جیسے:
❀ جب مسجد میں جگہ ختم ہو جائے، تو نمازی مسجد کے گردونواح میں صفیں ملا کر نماز پڑھتے ہیں؛
❀ مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ سب ایک جماعت بنیں۔
✿ یہی قیاس منیٰ میں رات گزارنے کے لیے درست ہے؛
✿ جبکہ کٹا ہوا ہاتھ اس کے لیے درست مثال نہیں کیونکہ وہ عضو موجود ہی نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب