زوال سے پہلے 13 ذوالحجہ کی رمی کا حکم اور شرعی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

حاجی کی ۱۳ ذوالحجہ کو واپسی اور زوال سے پہلے رمی کا حکم

سوال کی وضاحت:

اگر کوئی حاجی، جو سعودی عرب سے باہر کا رہائشی ہے، اس کی واپسی 13 ذوالحجہ کو عصر کے قریب طے ہے اور وہ 12 ذوالحجہ کو رمی کے بعد منیٰ سے باہر نہ نکلا، جس کے نتیجے میں اسے 13ویں رات منیٰ میں گزارنی پڑی—تو کیا وہ صبح سویرے زوال سے پہلے رمی کرکے روانہ ہوسکتا ہے؟ کیونکہ اگر وہ زوال کے بعد تک منیٰ میں رکا رہا تو سفر کی راہ میں اسے شدید دقت پیش آئے گی۔
اگر اس عمل (یعنی زوال سے پہلے رمی) کی اجازت نہیں، تو کیا کوئی ایسی رائے موجود ہے جو زوال سے پہلے رمی کو جائز قرار دیتی ہو؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زوال سے پہلے رمی کا حکم:

زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے۔
◈ البتہ، اگر حاجی کو شدید ضرورت یا مجبوری لاحق ہو، جیسے کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے، تو ایسی حالت میں رمی ساقط ہو جائے گی۔
◈ اس صورت میں حاجی کے ذمہ یہ لازم ہوگا کہ:

ایک فدیے کا جانور منیٰ یا مکہ میں ذبح کرے،

یا کسی کو اپنا وکیل بنا کر جانور ذبح کروائے،

اور اس جانور کا گوشت فقراء میں تقسیم کیا جائے۔

اس کے بعد حاجی طوافِ وداع کرکے وطن روانہ ہو سکتا ہے۔

کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے پہلے رمی جائز ہے؟

◈ جی ہاں، ایک رائے یہ کہتی ہے کہ زوال سے پہلے رمی جائز ہے،
◈ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے۔

صحیح موقف:

عید کے بعد کے دنوں (ایامِ تشریق) میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے۔
◈ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے:

> «ٔخُذُوْا عنی مَنَاسِکَکُمْ»
> (صحیح البخاری، العلم، باب الفتيا وهو واقف علی الدابة وغيرها، ح: ۸۳، وصحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرة العقبة يوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ له)
> ’’تم اپنے حج کے احکام مجھ سے سیکھو۔‘‘

◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق میں ہمیشہ زوال کے بعد رمی فرمائی۔

مجرد فعل اور وجوب کا تعلق:

◈ اگر کوئی یہ کہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال کے بعد رمی کرنا محض ایک فعل ہے اور محض فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، تو یہ بات اصولاً درست ہے۔
◈ یعنی اگر کوئی فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لیکن اس کا حکم نہیں دیا، تو وہ محض فعل شمار ہوگا، اور محض فعل وجوب کو لازم نہیں کرتا۔
◈ نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال سے پہلے رمی سے روک نہیں دیا۔

لیکن یہاں وجوب کی دلیل کیا ہے؟

اس مقام پر ایک قرینہ موجود ہے جو وجوب کی طرف اشارہ کرتا ہے:

➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ رمی کو زوال تک مؤخر کیا، یہ خود اس کے وجوب کی علامت ہے۔

➋ اگر زوال سے پہلے رمی جائز ہوتی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً اس سہولت کو اپناتے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب دو جائز امور میں سے انتخاب کا موقع آتا تو آپ آسان ترین کو اختیار فرماتے۔

> لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہولت والے عمل یعنی قبل از زوال رمی کو ترک فرمایا، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ قبل از زوال رمی کرنا گناہ ہے۔

مزید ایک دلیل:

◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے بعد فوراً ظہر کی نماز سے پہلے رمی کرتے تھے۔
◈ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت سے زوال کا انتظار فرماتے تاکہ جلد از جلد رمی کی جا سکے۔
◈ اسی وجہ سے نماز ظہر کو بھی مؤخر کر دیا جاتا، حالانکہ اول وقت میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔
◈ یہ سب کچھ زوال کے بعد رمی کی اہمیت اور اس کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔

نتیجہ:

◈ اس حاجی کے لیے زوال سے پہلے رمی جائز نہیں۔
◈ اگر زوال کے بعد رمی ممکن نہ ہو تو فدیہ واجب ہوگا۔
◈ زوال سے پہلے رمی کی اجازت دینے والی رائے صحیح نہیں ہے۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور طرزِ عمل وجوب پر دلالت کرتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1