کیا طواف افاضہ سے پہلے سعی کرنا جائز ہے؟ مکمل شرعی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال :

کیا حاجی کے لیے سعی کو طوافِ افاضہ سے پہلے کرنا جائز ہے؟

جواب :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی حاجی مفرد یا قارن ہو تو اس کے لیے طوافِ افاضہ سے پہلے حج کی سعی کرنا جائز ہے۔ وہ یہ سعی طوافِ قدوم کے بعد ادا کر سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور آپ کے ساتھ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے جنہوں نے قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے۔

متمتع حاجی کے لیے سعی کا حکم

اگر حاجی متمتع ہو تو اس پر دو سعی لازم ہوتی ہیں:

پہلی سعی مکہ مکرمہ میں آمد پر ہوتی ہے، جو عمرہ کی سعی کہلاتی ہے۔ عمرے کے لیے وہ:
◈ طواف کرتا ہے
◈ سعی کرتا ہے
◈ اور بال کٹواتا یا منڈواتا ہے

دوسری سعی حج کے لیے ہوتی ہے، اور افضل یہ ہے کہ یہ سعی طوافِ افاضہ کے بعد ادا کی جائے کیونکہ اصولاً سعی طواف کے بعد ہوتی ہے۔

تاہم، اگر کوئی متمتع حاجی سعی کو طواف سے پہلے کر لے تو راجح قول کے مطابق کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:

«لَا حَرَجَ»
(صحیح البخاری، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحیح مسلم، الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابی داود، المناسک باب فی من قدم شيئا… ح: ۲۰۱۵ واللفظ له)

یعنی: "کوئی حرج نہیں۔

عید کے دن حاجی کے پانچ اہم اعمال

حاجی کو عید کے دن درج ذیل پانچ اعمال ترتیب سے انجام دینے ہوتے ہیں:

➊ جمرہ عقبہ کی رَمی
قربانی کرنا
بالوں کو منڈوانا یا کٹوانا
بیت اللہ کا طواف (طوافِ افاضہ)
صفا و مروہ کی سعی

اگر کوئی قارن یا مفرد حاجی طوافِ قدوم کے بعد سعی کر چکا ہو تو اس پر دوبارہ سعی واجب نہیں ہے۔

ترتیب کی رعایت اور رخصت

◈ ان پانچ اعمال کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا افضل ہے۔
◈ البتہ ضرورت کے وقت ان میں آگے پیچھے کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
◈ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور آسانی ہے۔

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1