کیا نفلی سعی کرنا جائز ہے؟ مکمل شرعی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

کیا نفلی سعی بھی جائز ہے؟ – تفصیلی جواب

سوال :

کیا نفلی سعی بھی جائز ہے؟

جواب :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نفلی سعی کا جواز شریعت میں ثابت نہیں ہے۔ سعی کا عمل صرف حج یا عمرہ کے ساتھ مخصوص ہے، اور اس کی دلیل قرآن مجید سے واضح طور پر ملتی ہے۔

قرآنی دلیل

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

﴿ إِنَّ الصَّفا وَالمَروَةَ مِن شَعائِرِ اللَّهِ فَمَن حَجَّ البَيتَ أَوِ اعتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِما وَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَإِنَّ اللَّهَ شاكِرٌ عَليمٌ ﴿١٥٨﴾… سورة البقرة

ترجمہ:
’’بے شک کوہ صفا اور کوہ مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے، اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے (بلکہ طواف ایک قسم کا نیک کام ہے) اور جو کوئی نیک کام کرے تو اللہ قدر شناس اور دانا ہے۔‘‘
— سورة البقرة، آیت 158

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ سعی صرف حج یا عمرہ کے ساتھ مخصوص شعائر میں سے ہے، اور اس کے علاوہ کسی نفلی سعی کا تصور قرآن و سنت میں موجود نہیں۔

نتیجہ

لہٰذا، نفلی سعی کو شرعی طور پر جائز نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ سعی کو اللہ تعالیٰ نے حج اور عمرہ کے اعمال میں شامل کیا ہے، اور ان کے بغیر الگ سے سعی کرنا سنت یا شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1