سوال
ایک حاجی سے حج کے دوران کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں، لیکن اس کے پاس کفارہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں اور وہ اپنے وطن واپس چلا گیا۔ کیا وہ اپنے ملک میں رہ کر کفارہ ادا کر سکتا ہے، یا اس کے لیے مکہ میں موجود ہونا لازمی ہے؟ اگر مکہ میں ہونا ضروری ہے، تو کیا وہ کسی کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل مسئلے کا جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حاجی سے کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے، کیونکہ مختلف قسم کی خلاف ورزیوں کے مختلف احکام ہوتے ہیں۔
اگر کسی واجب کو ترک کیا گیا ہو:
◈ ایسی صورت میں فدیے کا جانور مکہ مکرمہ میں ذبح کرنا واجب ہے۔
◈ چونکہ یہ عمل حج سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے یہ قربانی مکہ کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں کی جا سکتی۔
اگر کسی ممنوع فعل کا ارتکاب کیا گیا ہو:
ایسی صورت میں تین میں سے کوئی ایک کفارہ ادا کرنا کافی ہے:
➊ چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا:
◈ یہ کھانا مکہ میں کھلایا جائے، یا اس جگہ جہاں ممنوع فعل ہوا ہو۔
➋ تین روزے رکھنا:
◈ یہ روزے مکہ میں بھی رکھے جا سکتے ہیں اور حاجی کے اپنے وطن میں بھی۔
➌ تحللِ اول سے قبل جماع کی صورت میں:
◈ ایسی حالت میں ایک اونٹ ذبح کرنا واجب ہے۔
◈ اس اونٹ کو اسی جگہ ذبح کیا جائے جہاں یہ ممنوع فعل سرزد ہوا ہو، یا مکہ مکرمہ میں ذبح کر کے وہاں کے فقرا میں تقسیم کیا جائے۔
اگر شکار کیا ہو:
◈ شکار کرنے کی صورت میں فدیہ اس شکار کے برابر جانور ہوگا، یا کھانا کھلانا، یا روزے رکھنا ہوں گے۔
◈ روزے کسی بھی جگہ رکھے جا سکتے ہیں۔
◈ لیکن جانور ذبح کرنے یا کھانا کھلانے کی صورت میں یہ کام حرم کی حدود میں ہونا لازم ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هَديًا بـلِغَ الكَعبَةِ﴾ (٩٥، سورة المائدة)
"یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے۔”
وکالت کی اجازت:
◈ اس مسئلے میں حاجی کسی کو اپنا وکیل مقرر کر سکتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف سے قربانی کا عمل انجام دے۔
◈ اس کی دلیل یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کے باقی ماندہ اونٹ ذبح کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل مقرر فرمایا تھا۔
(سنن ابي داؤد، المناسک، باب الہدی اذا عطب قبل ان یبلغ، حدیث: ۱۷۶۴ وقال الالبانی ’’منکر‘‘)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب