احرام میں بھول یا لاعلمی سے ممنوع عمل کرنے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

بھول کر یا لاعلمی میں حالت احرام کی خلاف ورزی کا حکم

سوال:

اگر کوئی شخص بھول کر یا لاعلمی کی بنیاد پر کوئی ایسا عمل کر بیٹھے جو حالتِ احرام میں ممنوع ہے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص ممنوعاتِ احرام میں سے کسی چیز کا ارتکاب اس وقت کرے جب اس نے احرام تو پہن لیا ہو، لیکن ابھی نیت نہ کی ہو، تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل اہمیت نیت کی ہے، صرف احرام پہن لینے سے کوئی چیز لازم نہیں ہوتی۔

لیکن جب وہ شخص نیت کرلے اور حج یا عمرے کی نیت سے احرام میں داخل ہو جائے، اور اس کے بعد وہ بھول کر یا لاعلمی کی وجہ سے ممنوعاتِ احرام میں سے کوئی کام کر بیٹھے تو بھی اس پر کوئی فدیہ یا کفارہ واجب نہیں ہوگا۔

البتہ اگر وہ بھول کر کسی ممنوع عمل کا ارتکاب کر رہا ہو تو:

یاد دلانا ضروری ہے تاکہ وہ اس عمل سے باز آجائے۔

✿ اور اگر وہ لاعلمی کی بنیاد پر کر رہا ہو تو:

اسے شرعی حکم سے آگاہ کیا جائے۔

❀ جب حکم واضح ہو جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو فوراً ترک کر دے۔

مثال کے طور پر:

✿ اگر کوئی محرم بھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن لے تو اس پر کوئی کفارہ یا فدیہ لازم نہیں ہوگا۔

لیکن جب اسے یاد دلایا جائے تو فوراً وہ کپڑے اتار دینا ضروری ہے۔

✿ اسی طرح اگر اس نے شلوار پہنی ہوئی ہو اور نیت و تلبیہ کے بعد یاد آئے تو:

❀ فوراً شلوار اتار دینا واجب ہے۔

❀ اس صورت میں بھی اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔

✿ اگر کوئی شخص لاعلمی کی بنا پر سویٹر پہن لے، جس میں سلائی نہ ہو لیکن وہ تیار شدہ ہو، اور وہ یہ سمجھے کہ بغیر سلائی والے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں، پھر جب اسے معلوم ہو جائے کہ ایسا پہننا بھی حالت احرام میں ممنوع ہے، تو:

❀ اس پر واجب ہوگا کہ وہ سویٹر فوراً اتار دے۔

عمومی اصول:

کوئی بھی شخص اگر حالت احرام میں ممنوعات میں سے کسی فعل کو بھول کر، لاعلمی کی وجہ سے، یا مجبوری کے تحت کرے تو اس پر کوئی کفارہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔

اس کی دلیل قرآن مجید سے درج ذیل آیات ہیں:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا رَبَّنا﴾
(سورة البقرة: 286)
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘

اور ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا﴾
(سورة الأحزاب: 5)
’’اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے)، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اور شکار سے متعلق، جو کہ حالتِ احرام میں ممنوع ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُتَعَمِّدًا﴾
(سورة المائدة: 95)
’’اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے (تو اس کا بدلہ دے)۔‘‘

ایک اہم بات:

یہ حکم تمام ممنوعاتِ احرام کے بارے میں عام ہے، چاہے ان کا تعلق:

✿ لباس سے ہو،

✿ خوشبو کے استعمال سے،

✿ شکار کرنے سے،

✿ یا سر منڈانے وغیرہ سے۔

اگرچہ بعض علماء نے ان امور میں فرق کیا ہے، لیکن راجح اور درست بات یہی ہے کہ ان تمام ممنوعات میں اگر کوئی شخص بھول، لاعلمی یا مجبوری کی وجہ سے ان کا ارتکاب کرے تو وہ معذور ہے اور اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آتا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1