عورت کے لیے پردے کی حد: کیا صرف چہرے کا پردہ فرض ہے؟
تحریر : قاری اسامہ بن عبدالسلام

سوال

آپ کا سوال بہت اہم ہے کہ کیا عورت کے لیے صرف چہرے کا پردہ فرض ہے یا پورا پردہ؟
ہم صرف قرآن، صحیح حدیث، اور اجماعِ صحابہ کی روشنی میں غیر جانبدار، تحقیقی جواب پیش کرتے ہیں۔

🔹 پہلا نکتہ: قرآن مجید کی آیات

سورۃ النور، آیت 31
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا…

ترجمہ:
"اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو (خودبخود) ظاہر ہو جائے۔”

✅ مفسرین کی تفسیر:

◄ امام ابن عباسؓ (ترجمان القرآن) کا قول:
إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی "الْوَجْهُ وَالْكَفَّانِ”
(یعنی چہرہ اور ہاتھ)
[تفسیر الطبری: 18/118، ابن جریر]

✅ امام طبری فرماتے ہیں:
"جس زینت کا استثناء کیا گیا وہ وہی ہے جو ظاہر ہوتی ہے: چہرہ اور ہاتھ۔”

✅ لیکن اس آیت میں چہرے کے پردے کا وجوب یا عدم وجوب واضح نہیں۔ صرف ایک عمومی ہدایت ہے۔ وضاحت حدیث سے ہوگی۔

🔹 دوسرا نکتہ: سورۃ الأحزاب، آیت 59

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ…

ترجمہ:
"اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔”
[سورۃ الأحزاب: 59]

✅ امام ابن عباسؓ کی تفسیر:
يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ یعنی:
تُغَطِّي شَعْرَهَا وَوَجْهَهَا وَصَدْرَهَا
(یعنی عورت اپنے بال، چہرہ اور سینہ ڈھانپ لے)
[تفسیر الطبری 22/33، در منثور]

🔹 تیسرا نکتہ: صحیح احادیث

✅ حدیث 1:
أسماء بنت أبی بکرؓ کے بارے میں روایت ہے:
أن رسول الله ﷺ قال: "يا أسماء، إن المرأة إذا بلغت المحيض، لم يصلح أن يُرى منها إلا هذا وهذا” وأشار إلى وجهه وكفيه.
[سنن أبي داود: 4104، صحیح لغیرہ]

ترجمہ:
"اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے، تو اس کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا کچھ ظاہر ہو سوائے اس کے اور اس کے۔” اور نبی ﷺ نے اپنے چہرے اور ہاتھ کی طرف اشارہ فرمایا۔

✅ یہ حدیث نبی ﷺ کے زمانے میں چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن یہ "وجوبِ پردہ” کا رد نہیں بلکہ رخصت کا پہلو ہے۔

✅ حدیث 2: نقاب کی پابندی احرام میں
"لَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ”
[صحیح بخاری: 1838]

ترجمہ:
"احرام کی حالت میں عورت نقاب نہ پہنے، نہ دستانے۔”

✅ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالت میں عورت نقاب (چہرہ چھپاتی) پہنتی تھی، اس لیے خاص حالتِ احرام میں منع کیا گیا۔

🔹 چوتھا نکتہ: اجماعِ صحابہ

✅ اجماع اور عمل صحابیاتؓ:

➊ صحابہؓ کی خواتین چہرے کو چھپایا کرتی تھیں۔ امام ابن حجر، ابن تیمیہ، اور ابن قیم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ عورت کے لیے فتنے کے خوف کی صورت میں چہرے کا پردہ فرض ہے۔

➋ عائشہؓ کا واقعہ – افک کے موقع پر:

جب قافلہ چلا گیا اور حضرت عائشہؓ پیچھے رہ گئیں، تو صفوانؓ نے انہیں دیکھا تو وہ کہتی ہیں:
"فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بْجِلْبَابِي”
(میں نے فوراً اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپ لیا)
[صحیح بخاری: 4750]

🔹 نتیجہ اور خلاصہ

✅ قرآن:
پردے کا حکم واضح ہے، اور بعض آیات میں چہرے کو ڈھانپنے کی طرف اشارہ ہے۔

✅ حدیث:
چہرہ کھولنے کی رخصت ہے مگر نقاب پہننے کی عام عادت بھی ثابت ہے۔ احرام کی حدیث اس کا ثبوت ہے۔

✅ اجماع صحابہ:
فتنے کے زمانے میں عورت کو چہرہ چھپانا لازم ہے، اور تقریباً تمام صحابیاتؓ نقاب کرتی تھیں۔

✅ حتمی بات:

عورت کے لیے فتنے کے اندیشے، اجنبی مردوں کی موجودگی، یا زمانے کے فساد کے پیش نظر چہرے کا پردہ (نقاب) کرنا واجب ہے۔
یہی قول ائمہ اربعہ، جمہور مفسرین، اور محدثین کا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1