کیا ایک شخص کئی افراد کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

ایک شخص نے کسی کو وکیل مقرر کیا تاکہ وہ اس کی ماں کی طرف سے حج ادا کرے، لیکن بعد میں اسے علم ہوا کہ یہ وکیل اور بھی کئی لوگوں کی طرف سے حج کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کو اپنے مالی اور دینی معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ کسی کو اپنے معاملات میں وکیل مقرر کرتے وقت اس کے دین، امانت داری اور متعلقہ امور کے علم کے بارے میں مکمل اطمینان حاصل ہونا چاہیے۔

وکیل مقرر کرنے کی شرائط

❀ جب آپ کسی شخص کو اس نیت سے مال دیتے ہیں کہ وہ آپ کے مرحوم والد یا والدہ کی طرف سے حج بدل کرے، تو ضروری ہے کہ:
◈ آپ کو اس شخص کے علم اور دین پر مکمل اعتماد ہو۔
◈ وہ شخص احکامِ حج سے واقف ہو۔
◈ وہ شخص امانت دار ہو۔

نااہل شخص کو وکیل بنانے کے نقصانات

❀ بہت سے افراد حج کے احکام سے لاعلم ہوتے ہیں، اگرچہ وہ فی نفسہٖ امانت دار ہوں۔
❀ ایسے افراد حج کے اہم مناسک کی ادائیگی میں غلطیاں کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل ان پر واجب ہے۔
❀ احکامِ حج کے بارے میں علم نہ رکھنے والے افراد کو نائب مقرر نہیں کرنا چاہیے۔

صرف علم کافی نہیں، امانت داری بھی شرط ہے

❀ کچھ افراد احکامِ حج کا علم تو رکھتے ہیں، لیکن ان میں امانت و دیانت کا فقدان ہوتا ہے۔
❀ ایسے لوگ حج کے مناسک میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا کیا کہہ رہے ہیں۔
❀ لہٰذا، ایسے افراد کو بھی وکیل مقرر نہیں کرنا چاہیے۔

مثالی وکیل کا انتخاب

❀ حج کے لیے ایسے شخص کو وکیل بنانا چاہیے جو:
علم کے لحاظ سے باخبر ہو۔
امانت کے لحاظ سے قابلِ اعتماد ہو۔
❀ تاکہ وہ اس فرض کو مکمل طور پر درست طریقے سے ادا کر سکے، جیسا کہ اس سے مطلوب ہے۔

ایک سے زائد لوگوں کے لیے حج بدل کی وکالت کا مسئلہ

جس شخص کا ذکر سوال میں آیا کہ اسے ماں کی طرف سے حج کرنے کے لیے مال دیا گیا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے کئی اور لوگوں کی طرف سے بھی حج بدل کے لیے مال لیا ہے، تو ایسی صورت میں درج ذیل امور کا جائزہ لینا ضروری ہے:

❀ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے دوسرے لوگوں کو بھی حج بدل کے لیے تیار کر رکھا ہو۔
❀ ممکن ہے کہ وہ خود آپ کی طرف سے حج کر رہا ہو جبکہ دوسروں کی طرف سے کوئی اور افراد حج ادا کر رہے ہوں۔

کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

نہیں، یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔
❌ یہ عمل باطل طریقے سے مال کھانے کے مترادف ہے۔
❌ بعض افراد نے اس عمل کو کاروبار بنا لیا ہے، جہاں وہ متعدد افراد سے مال لے کر حج یا عمرہ کی نیابت دوسرے لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔
❌ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کو اصل مال دینے والے شاید پسند نہ کریں۔

دینی اور اخلاقی ذمہ داری

❀ ایسے افراد کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ اپنے یا اپنے بھائیوں کے لیے ایسا عمل انجام دے رہے ہوں۔
❀ اگر کسی نے کسی کو حج یا عمرہ کے لیے امین مقرر کیا ہے، تو:
◈ اسے یہ عمل کسی اور کے سپرد کرنا جائز نہیں۔
◈ کیونکہ ممکن ہے کہ مال دینے والے اس تیسرے شخص کو حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے پسند نہ کرتے ہوں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1