سوال
روزہ دار اگر بھول کر کھا لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور جو اسے دیکھ رہا ہو، اس کے لیے کیا واجب ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے، اس کا روزہ صحیح ہے۔ البتہ، جیسے ہی اُسے یاد آ جائے، اس کے لیے رک جانا واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر لقمہ یا پانی کا گھونٹ منہ میں ہو تو اسے فوراً تھوک دینا لازم ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس بات کی دلیل ہے:
«مَنْ نَسِیَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَکَلَ وَشَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللّٰهُ وَسَقَاهُ»
(صحيح البخاري، الصوم، باب اذا اکل او شرب ناسيا، ح: ۱۹۳۳ وصحيح مسلم، الصيام، باب اکل الناسی وشربه وجماعة لا يفطر، ح: ۱۱۵۵ واللفظ له)
’’جو روزہ دار بھول کر کھا یا پی لے تو اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘
کیونکہ بھول کر ممنوع فعل کے ارتکاب پر انسان سے مواخذہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا﴾ (٢٨٦: سورة البقرة)
’’اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ:
’’میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘
دیکھنے والے کا حکم
جو شخص اسے دیکھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے یاد دلا دے۔ کیونکہ یہ برائی سے روکنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِه فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه فَإِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه»
(صحيح مسلم، الايمان، باب کون النهی عن المنکر من الايمان، ح: ۴۹)
’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھا دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے۔‘‘
نتیجہ
روزے کی حالت میں کھانا پینا یقیناً برائی ہے۔ اگرچہ نسیان کی وجہ سے روزہ دار پر کوئی مواخذہ نہیں، لیکن دیکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اسے یاد دلا دے اور روکنے کی کوشش کرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب