سوال
**مسافر کو مشقت کے ساتھ روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟**
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- اگر سفر کے دوران روزہ رکھنا ایسی مشقت کا باعث بنے جو قابل برداشت ہو تو اس حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا اور اس کے اردگرد لوگ جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ»
(صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی لمن ظلل عليه واشتد الحر: ’’ليس من البر الصيام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافرين من غير معصية، ح: ۱۱۱۵)"سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔”
- اگر سفر کے دوران روزہ رکھنا شدید مشقت کا باعث بنے، تو پھر روزہ چھوڑ دینا واجب ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک سفر کے دوران جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ روزہ ان پر بہت بھاری ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے ابھی بھی روزہ رکھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اُولٰئِکَ الْعُصَاةُ اُولٰئِکَ الْعُصَاةُ»
(صحيح مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر فی شهر رمضان للمسافر من غير معصية، ح: ۱۱۱۴)"یہ لوگ نافرمان ہیں، یہ لوگ نافرمان ہیں۔”
- البتہ جن کے لیے سفر میں روزہ رکھنا آسان ہو، ان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ روزہ رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
«کْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ فِی حَرِّ شَدِيْدٍ- وَمَا مْنَا صَائِمٌ اِلاَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَعَبْدُاللّٰهِ بْنُ رَوَاحَةَ»
(صحيح البخاري، الصوم، باب بعد باب: اذا صام اياما من رمضان ثم سافر، ح: ۱۹۴۵ وصحيح مسلم، الصيام، باب التخيير فی الصوم والفطر فی السفر، ح: ۱۱۲۲ واللفظ له)"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماہ رمضان میں سخت گرمی کے موسم میں نکلے۔ ہم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزہ دار تھے۔”
**ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب**