ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام
سوال
جب کوئی انسان کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ دیتا ہے اور دن کے دوران وہ عذر ختم ہو جاتا ہے، تو کیا اس دن کے باقی حصے میں کھانے پینے سے رکنا ضروری ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- اس شخص کے لیے دن کے باقی حصے میں کھانے پینے سے رکنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس نے شریعت کی دلیل کی بنیاد پر روزہ چھوڑا ہے۔
- شریعت نے اس شخص کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے کیونکہ وہ عذر کی وجہ سے مجبور تھا، جیسے دوا لینے کی مجبوری۔
- جب اس نے دوا لی، تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا، اور اس دن کی حرمت اس کے حق میں باقی نہیں رہی، کیوں کہ شریعت نے روزہ چھوڑنے کی اجازت دے دی تھی۔ البتہ اس دن کی قضا اس پر لازم ہوگی۔
- اس کو کھانے پینے سے روکنا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:
- اگر کوئی دیکھے کہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا ہے اور اسے بچانے کے لیے وہ خود پانی پی لے (جو عام حالات میں منع ہوتا ہے)، تو وہ ایسا کر سکتا ہے، اور باقی دن وہ کھا پی سکتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کے تقاضے کے مطابق عمل کیا تھا۔
- اسی طرح:
- اگر کوئی مریض ہے، تو ہم اس مریض کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف بھوک لگنے پر کھانا کھا اور پیاس لگنے پر پانی نہ پی، کیونکہ شریعت نے مریض کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔
اس اصول کی روشنی میں:
- ہر وہ شخص جو شریعت کی دلیل کے ساتھ رمضان کا روزہ چھوڑے، اس پر دن کے باقی حصے میں کھانے پینے سے رکنا لازم نہیں۔
اس کے برعکس:
- جو شخص بغیر عذر کے روزہ چھوڑے، اس کے لیے دن کے باقی حصے میں کھانے پینے سے رکنا لازم ہے۔
- اس لیے کہ اس نے بغیر کسی شرعی دلیل کے دن کی حرمت کو پامال کیا ہے۔
- اس پر نہ صرف دن کے باقی حصے میں کھانا پینا چھوڑنا لازم ہے بلکہ اس دن کی قضا بھی ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب