کیا دنیا بھر کے روزے ایک ساتھ رکھنا ممکن ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مطالع کو مکہ کے مطالع کے مطابق کیا جائے تاکہ رمضان المبارک اور دیگر مہینے بیک وقت شروع ہوں اور اس سے امت کی وحدت کا اظہار ہو۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات علم فلکیات کے اعتبار سے ناممکن ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہلال کے مطالع مختلف ہیں۔ اس بات پر علم فلکیات کے ماہرین کا بھی مکمل اتفاق ہے۔ جب مطالع مختلف ہیں، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نقلی اور عقلی دلائل کی روشنی میں ہر علاقے کا اپنا اپنا اعتبار کیا جائے۔

نقلی دلیل

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ…﴿١٨٥﴾… سورة البقرة

’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘

اگر زمین کے کسی دور دراز علاقے کے لوگوں نے ہلال نہیں دیکھا، اور اہل مکہ نے دیکھ لیا، تو یہ آیت ان لوگوں کے لیے کیسے ہوگی جو ہلال کو نہیں دیکھ سکے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ»
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی روزہ ختم کرو۔‘‘
(صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی: اذا رايتم الهلال…، ح:۱۹۰۹ وصحيح مسلم، الصيام، باب وجوب صوم رمضان لروية الهلال، ح: ۱۰۸۱ (۱۸))

اگر اہل مکہ نے چاند دیکھ لیا ہو، تو اہل پاکستان یا ان سے مشرق کی جانب بسنے والے دیگر ممالک کے لوگوں کے لیے روزہ کیوں لازم قرار پائے؟ جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ان کے افق پر ہلال طلوع ہی نہیں ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کو رؤیت ہلال کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔

عقلی دلیل

عقلی دلیل بھی اسی اصول کی تائید کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ زمین کے مشرقی علاقے میں فجر مغربی علاقے سے پہلے طلوع ہوتی ہے۔ تو کیا جب مشرق میں فجر طلوع ہو جائے تو مغرب میں موجود لوگوں پر بھی کھانے پینے سے رکنا لازم ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح، جب مشرق میں سورج غروب ہو جاتا ہے اور مغرب میں دن باقی ہے تو مغرب والوں کے لیے افطار کرنا درست نہیں۔ ہلال بھی اسی اصول پر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سورج کا دورانیہ روزانہ ہوتا ہے اور ہلال کا دورانیہ ماہانہ۔

اسی رب تعالیٰ نے فرمایا:

﴿أُحِلَّ لَكُم لَيلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُم هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم كُنتُم تَختانونَ أَنفُسَكُم فَتابَ عَلَيكُم وَعَفا عَنكُم فَالـٔـنَ بـشِروهُنَّ وَابتَغوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى الَّيلِ وَلا تُبـشِروهُنَّ وَأَنتُم عـكِفونَ فِى المَسـجِدِ تِلكَ حُدودُ اللَّهِ فَلا تَقرَبوها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ ءايـتِهِ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ ﴿١٨٧﴾… سورة البقرة

’’روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے، سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے در گزر فرمایا۔ اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو اللہ سے طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے، پھر روزہ رکھ کر اسے رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ…﴿١٨٥﴾… سورة البقرة
’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘

نتیجہ

لہٰذا نقلی اور عقلی دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ روزے رکھنے یا چھوڑنے کے معاملے میں ہر علاقے کے لوگوں کے لیے وہی حکم ہو جو ان کے حالات کے مطابق ہو۔ یہ حکم اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں مذکور علامات (چاند، سورج، فجر) کے ساتھ مشروط ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1