کیا صدقہ جاریہ صرف اپنی زندگی میں کیا ہوا عمل ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال:

کیا صدقہ جاریہ وہ ہے جسے انسان خود اپنی زندگی میں کرے، یا صدقہ جاریہ وہ ہے، جو اس کی وفات کے بعد اس کی طرف سے اس کے وارث انجام دیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:

«اِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ»
(صحيح مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، ح: ۴۲۲۳، ۱۶۳۱ (۱۴))

’’سوائے صدقہ جاریہ کے۔‘‘

اس نص سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ جاریہ وہ ہے جسے انسان خود اپنی زندگی میں کرے، نہ کہ وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد اس کی طرف سے اس کی اولاد کرے۔ کیونکہ اولاد کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ»
(صحيح مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، ح: ۴۲۲۳ ۱۶۳۱ (۱۴))

’’نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

اگر میت نے کوئی وصیت کی ہو تو وہ بھی صدقہ جاریہ بن سکتی ہے۔ یا اگر اس نے کوئی چیز وقف کر دی ہو اور اس کی موت کے بعد اس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو تو وہ بھی صدقہ جاریہ میں شمار ہو گا۔ اسی طرح علم بھی بندے کی کمائی ہے، لہٰذا علم نافع بھی صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح جب اس کی اولاد اس کے لیے دعا کرے تو اس کا بھی اسے فائدہ پہنچتا ہے۔

اگر ہم سے پوچھا جائے کہ:
"میں اپنے والد کی طرف سے دو رکعت نماز پڑھوں یا اپنی طرف سے دو رکعت نماز پڑھ کر والد کے لیے دعا کروں؟”

تو ہم کہیں گے کہ افضل یہ ہے کہ اپنی طرف سے دو رکعت نماز پڑھو اور والد کے لیے دعا کرو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:

«اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ»
(صحيح مسلم، الوصية، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، ح: ۴۲۲۳ ۱۶۳۱ (۱۴))

’’یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ:
"یا نیک اولاد جو اس کی طرف سے نماز پڑھے یا کوئی دوسرا نیک کام کرے۔”
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1