ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام
قریبی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کا حکم
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس حوالے سے ایک عمومی اصول یہ ہے:
اصول:
وہ قریبی رشتہ دار جن کا نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہو
ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ اس سے ان کا نفقہ اُٹھانے کی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی، جو کہ زکوٰۃ دینے والے پر فرض ہے۔
تفصیل:
- قریبی رشتہ دار جن کا نان نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہیں ہوتا
- جیسے بھائی، بشرطیکہ زکوٰۃ دینے والے کے اپنے بیٹے موجود ہوں۔
- اس حالت میں بھائی کا نفقہ اس پر لازم نہیں ہوتا کیونکہ بیٹوں کی موجودگی میں بھائی وارث نہیں بن سکتا۔
- اس لیے اگر بھائی مستحق ہو تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
- قریبی رشتہ دار جنہیں خود نفقہ کی ضرورت نہ ہو لیکن ان پر قرض ہو
- ایسے قرض کو ادا کرنے کے لیے انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
- خواہ وہ قریبی رشتہ دار باپ، بیٹا، بیٹی یا ماں ہی کیوں نہ ہوں۔
- شرط یہ ہے کہ یہ قرض ان کے نفقہ کی کمی کی وجہ سے نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے بنا ہو۔
مثال:
- اگر کسی کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں اس پر تاوان واجب ہو گیا۔
- اس تاوان کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس مال نہ ہو۔
- اس صورت میں والد زکوٰۃ کے مال سے یہ تاوان ادا کر سکتا ہے۔
- کیونکہ یہ تاوان نفقے کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک حادثے کی وجہ سے واجب ہوا ہے۔
عمومی قاعدہ:
- ہر وہ شخص جس نے ایسے قریبی رشتہ دار کو زکوٰۃ دی جس کا نفقہ اس پر لازم نہیں
- تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب