زکوٰۃ دینے کا حکم: طالب علم و شادی کے اخراجات
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

طالب علم کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے طالب علم کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے جس نے خود کو شرعی علم کے حصول میں مشغول کیا ہوا ہے، چاہے وہ کمانے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ کیونکہ شرعی علم حاصل کرنا "جہاد فی سبیل اللہ” کی ایک قسم ہے، اور "جہاد فی سبیل اللہ” کو بھی اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف میں شمار کر کے اسے زکوٰۃ کا حق دار ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّمَا الصَّدَقـتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـكينِ وَالعـمِلينَ عَلَيها وَالمُؤَلَّفَةِ قُلوبُهُم وَفِى الرِّقابِ وَالغـرِمينَ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَابنِ السَّبيلِ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٦٠﴾… سورة التوبة

’’صدقات (یعنی زکوٰۃ وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب مقصود ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دئیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘

دنیوی تعلیم کے طالب علم کو زکوٰۃ کا حکم

اگر کوئی طالب علم دنیوی تعلیم کے حصول میں مصروف ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ ہم اسے کہیں گے کہ تم دنیا کے لیے کام کر رہے ہو اور تم اس کے ذریعے ملازمت حاصل کرو گے، اس لیے تمہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔

شادی کے لیے زکوٰۃ کا حکم

اگر ہم دیکھیں کہ کوئی شخص کھانے پینے اور رہائش کے اخراجات کے لیے تو کما سکتا ہے، لیکن شادی کی ضرورت کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہے، تو کیا اس شخص کو شادی کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے؟
اس کا جواب ہے: ہاں، اس شخص کو شادی کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔
زکوٰۃ کی مد سے اس کو مہر ادا کرنے کے لیے مکمل رقم دی جا سکتی ہے۔

اگر کوئی کہے کہ فقیر کو شادی کے لیے رقم دینا یا زیادہ رقم دینا کیسے جائز ہے؟
ہم کہیں گے کہ بعض اوقات انسان کو شادی کی ضرورت بھی کھانے پینے کی طرح شدید ہوتی ہے۔ اس لیے اہل علم نے فرمایا ہے کہ جس شخص پر کسی کا خرچ لازم ہو، اس کو اس کی شادی کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہئیں، بشرطیکہ وہ مالی طور پر استطاعت رکھتا ہو۔

مثلاً:
باپ پر یہ واجب ہے کہ جب بیٹے کو شادی کی ضرورت ہو اور اس کے پاس اس کے اخراجات نہ ہوں تو وہ بیٹے کی شادی کا بندوبست کرے۔
لیکن بعض باپ اپنی جوانی کی حالت کو بھول جاتے ہیں۔ جب ان کا بیٹا ان سے شادی کے لیے کہتا ہے تو جواب دیتے ہیں: "اپنی پیشانی کا پسینہ بہاؤ، یعنی خود کما کر شادی کرو”۔
یہ طرز عمل جائز نہیں اگر باپ کے پاس بیٹے کی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی طاقت موجود ہو۔ اگر مالی استطاعت کے باوجود وہ اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ نہیں کرتا، تو روز قیامت بیٹا اس کا خصم بن کر اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرے گا۔

چھوٹے بیٹوں کے مہر کے لیے مال کی وصیت کا حکم

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے کئی بیٹے ہیں، کچھ کی شادی ہو چکی ہے اور کچھ چھوٹے ہیں، تو کیا باپ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی زندگی میں چھوٹے بیٹوں کے لیے شادی کے مہر کی مد میں وصیت کرے کیونکہ اس نے بڑے بیٹوں کی شادی پر مال خرچ کیا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ:

  • جب آدمی اپنے بڑے بیٹوں کی شادی پر خرچ کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹوں کے لیے وصیت کرے۔
  • بلکہ یہ واجب ہے کہ جب چھوٹے بیٹے بھی شادی کی عمر کو پہنچیں تو ان کی شادی پر اسی طرح خرچ کرے جس طرح بڑے بیٹوں کی شادی پر خرچ کیا تھا۔
  • مرنے کے بعد ان کے لیے وصیت کرنا حرام ہے۔

اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے:

«اِنَّ اللّٰهَ قَدْ اَعْطٰی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»
(سنن ابي داؤد، الوصايا، باب ماجاء فی الوصية للوارث، ح: ۲۸۷۰ وجامع الترمذی، الوصايا، باب ماجاء لا وصية لوارث، ح: ۲۱۲۰)

’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر حق دار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1