ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام
کرائے پر دیے ہوئے گھر کی زکوٰۃ کا حکم
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- وہ گھر جو کرائے پر دینے کے لیے رکھا جائے، اس کی مالیت پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
- زکوٰۃ صرف اس کرائے کی آمدنی پر ہوگی، بشرطیکہ کرائے کے معاہدے پر ایک سال کا عرصہ مکمل ہو۔
- اگر معاہدے کے بعد ایک سال مکمل نہ ہو، تو اس رقم پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
- مثال کے طور پر: اگر ایک شخص نے اپنا گھر دس ہزار روپے کے کرائے پر دیا، اور معاہدے کے وقت اس سے پانچ ہزار روپے وصول کر لیے، پھر ان پانچ ہزار کو خرچ کر دیا۔
- نصف سال کے بعد باقی پانچ ہزار وصول کر لیے اور سال پورا ہونے سے پہلے وہ بھی خرچ ہو گئے، تو ایسی صورت میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی کیونکہ سال مکمل نہیں ہوا۔
اگر گھر تجارت کے ارادے سے کرائے پر دیا گیا ہو
- اگر کسی شخص نے یہ نیت کر رکھی ہو کہ گھر تجارت کے لیے ہے اور اسے فروخت کرنے سے پہلے کرائے پر دیا جا رہا ہے، تو اس صورت میں:
- گھر کی مالیت پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
- کرائے کی رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ معاہدے پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔
نیت کی اہمیت
- گھر کی مالیت پر زکوٰۃ اس لیے واجب ہوگی کیونکہ مالک نے اس گھر کو تجارت کے لیے رکھا ہے، نہ کہ محض کرایہ وصول کرنے کے لیے۔
- جس چیز کا مقصد تجارت اور کمائی ہو، اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی»
(صحيح البخاري، بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحی الی رسول الله صلی الله عليه وسلم مسلم، الامارة، باب قوله: صلی الله عليه وسلم انما الاعمال بالنية، ح: ۱۹۰۷)
’’تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘
- اگر کسی شخص کے پاس اموال ہوں اور وہ ان سے تجارت اور کمائی کا ارادہ رکھتا ہو تو:
- اس کی نیت ان اموال کی قیمت کی ہوتی ہے، ان کی ذات کی نہیں۔
- ان کی قیمت دراہم اور نقدی ہوتی ہے۔
- دراہم اور نقدی پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
نتیجہ
لہٰذا، جس کا مقصد تجارت اور کرایہ وصول کرنا ہو، اس پر گھر کی مالیت اور کرائے دونوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ معاہدے پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب