بس اتنی سی حقیقت…
جب انسان اس دنیا میں آتا ہے، ہر آنکھ اس کا استقبال کرنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔ ہنسی، خوشی، مبارکبادیں، دعائیں اور امیدوں کے قافلے اُس کے وجود کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔ لیکن شاید ہی کوئی سوچتا ہے کہ یہ قافلہ دراصل اُس کی واپسی کا سفر ہے، اور اس سفر کا اختتام مٹی کی آغوش میں ہی ہوتا ہے۔
قرآن میں بیان کردہ حقیقت
اللہ تعالیٰ نے انسان کی حقیقت کو قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا:
كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ –
"اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش، جس کا اگایا ہوا پودا کسانوں کو خوش کر دیتا ہے…”
(الحديد: 20)
پودے کی طرح انسان کی حقیقت
واقعی، انسان بالکل اسی پودے کی مانند ہے۔ جب گندم کا پودا اگتا ہے تو کتنا شاداب اور تروتازہ لگتا ہے! ہر طرف لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ سب دعائیں دیتے ہیں اور اس کی بڑھوتری پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ بڑھتا ہے، پھیلتا ہے اور خوب لہلہاتا ہے۔ لوگ اس کے سائے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ یہی پودا زرد پڑنے لگتا ہے، کمزور ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن آندھی یا درانتی کے ہاتھوں کاٹ دیا جاتا ہے۔
یہی حقیقت انسان کی بھی ہے۔
زندگی کی اصل کہانی
چاہے وہ تخت پر بیٹھا بادشاہ ہو یا فٹ پاتھ پر سونے والا مزدور، سب کی کہانی ایک ہی جیسی ہے:
◈ آغاز میں کمزوری
◈ درمیان میں طاقت کا فریب
◈ انجام میں فنا
زندگی کا دھوکہ
ہم اس زندگی کے دھوکے میں گم ہو جاتے ہیں۔ دولت، شہرت، طاقت اور جاہ و حشم کو اپنی اصل طاقت سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، سب کچھ دھندلا پڑ جاتا ہے۔ رشتے بچھڑ جاتے ہیں، جسم کمزور ہو جاتا ہے اور آخرکار قبر انسان کو گلے لگا لیتی ہے۔
حقیقت اور کامیابی
تو پھر اصل حقیقت کیا ہے؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان وہی کامیاب ہے جس نے اس مختصر زندگی میں اپنے رب کو پہچان لیا۔ اُس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کی اور خود کو اُس دن کے لیے تیار کر لیا جب صرف نیتوں کا مول ہوگا۔
کھیت کی مثال
زندگی ایک کھیت ہے۔ یہاں جو کچھ بوئیں گے، وہی اُگے گا۔ اگر گندم کی جگہ کانٹے بو دیے تو انجام بھی ویسا ہی ہوگا۔ لہٰذا ابھی بھی وقت ہے کہ:
◈ خود کو سنوارا جائے
◈ جھوٹی شان و شوکت سے نکل کر
◈ اصل سکون اور رب کی رضا کی طرف بڑھا جائے
کیونکہ انسان کی حقیقت… بس اتنی سی ہے!