میت دفن کرنے کے بعد قبر پر اجتماعی دعا
سوالات:
➊ کیا میت کی تدفین کے بعد قبر پر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے؟
➋ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان: "استغفروا لأخيكم” – کیا یہ دعا انفرادی ہے یا اجتماعی؟
➌ السنن الکبریٰ للبیہقی (جلد 4، صفحہ 56) کے مطابق کتاب الجنائز، باب ما یقال بعد الدفن میں ابن ابی ملیکہ کا قول ہے:
"رأيت عبد الله بن عباس لما فرغ من قبر عبد الله بن السائب وقام الناس عنه قام ابن عباس فوقف عليه ودعا له”
اس کی تفصیل اور وضاحت مطلوب ہے۔
➍ مصنف عبدالرزاق کی کتاب الجنائز کے باب "الدعاء للميت حين يفرغ منه” میں وارد آثار کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
میت کی تدفین کے بعد دعا کا ثبوت
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم : (إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ)”
(سنن ابی داود: 3221، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف، وسندہ حسن، و صححہ الحاکم: 1/370، حدیث: 1372، ووافقہ الذہبی)
اس حدیث مبارکہ سے دو اہم مسائل کا ثبوت ملتا ہے:
❀ میت کی تدفین کے بعد اس کے لیے دعا کرنا
❀ اجتماعی دعا کا جواز
اجتماعی دعا کا ثبوت
حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کے حوالے سے لکھا ہے:
"اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کر دعا کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے، ہاں ہاتھ اُٹھانا آدابِ دعا سے ہے، اس لیے اٹھانا بہتر ہے مگر لازم نہ سمجھے۔ اور اگر کوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تو اس پر اعتراض نہ کرے۔۔۔”
(فتاوی اہلحدیث، جلد 2، صفحہ 131)
اس حدیث میں چونکہ جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جیسے: "استغفروا لأخيكم”، اس لیے یہ دعا اجتماعی مانی جاتی ہے۔
آثار صحابہ و تابعین سے دلائل
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رأيت عبد الله بن عباس لما فرغ من قبر عبد الله بن السائب وقام الناس عنه قام ابن عباس فوقف عليه ودعا له”
(السنن الکبریٰ للبیہقی، المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی، جلد 1، صفحہ 222)
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
مصنف عبدالرزاق کے آثار اور ان کی اسنادی حیثیت
اثر ابن المنکدر
مصنف عبدالرزاق میں ہے:
"وعن أيوب، قال: وقف ابن المنكدر على قبر بعد أن فرغ منه، فقال: اللهم ثبته، هو الآن يسأل”
(جلد 3، صفحہ 509، حدیث: 6504)
یہ روایت صحیح سند کے ساتھ ہے۔
البتہ، اس باب کی دیگر تمام اسانید ضعیف ہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایات
➊ عبداللہ بن ابی بکر رحمہ اللہ سے روایت ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد کھڑے ہو جاتے اور میت کے لیے دعا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 330، حدیث: 11705، ملخصاً، سندہ صحیح)
➋ احنف بن قیس رحمہ اللہ کا عمل:
وہ قبر پر کھڑے ہوکر دعا کیا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 331، حدیث: 11708، سندہ حسن – خالد، حسن الحدیث)
➌ ایوب السختیانی رحمہ اللہ:
وہ بھی قبر پر کھڑے ہوکر میت کے لیے دعا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 331، حدیث: 11710، سندہ صحیح)
نتیجہ
یہ تمام آثارِ صحابہ و تابعین اور مرفوع حدیث اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ میت کی تدفین کے بعد قبر پر دعا کرنا – خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی – بالکل درست اور ثابت شدہ عمل ہے۔
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب