دو سجدوں کے درمیان ہاتھ گھٹنے پر رکھنا یا ران پر؟ تفصیلی فتویٰ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد: 3، باب: نماز سے متعلق مسائل، صفحہ: 112

دو سجدوں کے درمیان بائیں ہاتھ سے گھٹنے کو پکڑنے کا مسئلہ

سوال:

دو سجدوں کے درمیان بائیں ہاتھ سے گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے یا ران پر رکھنا؟ احناف اس عمل میں ہاتھ ران پر رکھنے کے قائل ہیں، جبکہ اہل حدیث عمل گھٹنے پکڑنے کا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی دلیل پیش کریں۔
(سائل: شمس الرحمٰن، کراچی)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے کے متعلق کوئی صریح اور صحیح حدیث میرے علم میں نہیں ہے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سجدوں کے درمیان کچھ دیر بیٹھنا ثابت ہے۔

احادیث مبارکہ سے ثبوت:

➊ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت:
صحیح بخاری: 820، صحیح مسلم: 471(1057)

➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت:
وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ
"اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دو سجدوں کے درمیان (اتنی دیر) بیٹھتے تھے کہ کوئی کہہ دیتا: آپ بھول گئے ہیں۔”
(صحیح البخاری: 821، صحیح مسلم: 472(1040))

➌ صحیح بخاری کی ایک حدیث:
ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعاً , ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِماً , ثُمَّ اُسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِداً, ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِساً
"پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کر، پھر رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جا، پھر اطمینان سے سجدہ کر، پھر سجدے سے اٹھ کر اطمینان سے بیٹھ جا۔”
(صحیح بخاری: 6251)

ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھا کرتے تھے۔

اجماع کا مسئلہ:

صحیح العقیدہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو سجدوں کے درمیان دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے جائیں۔ اور اجماع شریعت میں شرعی حجت ہوتا ہے۔

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت:

وسجد فوضع يديه حذو أذنيه ثم جلس فافترش رجله اليسرى ثم وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى ثم أشاربسبابته ووضع الإبهام على الوسطى، وقبض سائر أصابعه، ثم سجد فكانت يداه حذاء أذنيه
"آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے برابر رکھے، پھر بیٹھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھایا، پھر بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھا اور دایاں بازو اپنی دائیں ران پر رکھا، پھر شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، انگوٹھا درمیانی انگلی پر رکھا اور باقی انگلیاں بند کر لیں۔ پھر دوبارہ سجدہ کیا اور دونوں ہاتھ کانوں کے برابر تھے۔”
(مسند احمد: 4/317، حدیث: 18858)

اس روایت کی حیثیت:

اس روایت کی سند میں سفیان بن سعید الثوری ہیں، جو کہ مدلس راوی ہیں اور روایت "عن” سے ہے، لہٰذا اصولِ حدیث کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے۔

* وہ لوگ جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ہر مدلس راوی کی "عن” والی روایت صحیح ہوتی ہے، جب تک کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت نہ ہو، تو ان اصولوں کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔
* ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اصول کے مطابق اس روایت پر عمل کریں۔

لیکن ہمارے نزدیک یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس موضوع پر ہمارا اصل اعتماد اجماع پر ہے۔

گھٹنے کو پکڑنے یا ہاتھ رکھنے کا حکم:

جہاں تک یہ سوال ہے کہ بائیں گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے یا ہاتھ رکھ دینا کافی ہے، تو اس بارے میں کوئی صریح دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔

لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جمہور اہلِ سنت و الجماعت (صحیح العقیدہ مسلمانوں) کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے، اور دونوں رانوں یا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے جائیں۔

واللہ اعلم۔

(2 فروری 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1