نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا
عن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ [صحیح البخاری: 104/1 ح 756، صحیح مسلم: 169/1 ح 394]
اس حدیث کے راوی عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فاتحہ خلف الامام کے (جہری و سری سب نمازوں میں) قائل و فاعل تھے۔ [کتاب القراء للبیہقی ص 133، واسناده صحیح، نیز دیکھیے حسن الکلام تصنیف سرفراز خان صفدر الدیوبندی: جلد 2 ص 22 طبع دوم]
راوی حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ کے فہم کے مقابلے میں امام احمد وغیرہ کی تاویل مردود ہے۔ خود امام احمد رحمہ اللہ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ [دیکھیے سنن الترمذی 311]
فوائد:
(1)اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، چاہے امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔ [دیکھیے تبویب صحیح البخاری، اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی 500/1]
(2)یہ حدیث متواتر ہے۔ [جزء القراء للبخاری: 5]
(3)سورہ المزمل کی آیت: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ (المزمل: 20) سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں مقتدی پر قراءت واجب (یعنی فرض) ہے۔ [دیکھیے نور الانوار ص 93، 94 احسن الحواشی شرح اصول الشاشی: ص 82 حاشیہ 7، غایت التحقیق شرح الحسامی: ص 73، النامی شرح الحسامی ص 155 ، 156، معلم الاصول ص 250 وغیرہ]
حدیث بالا نے اس قراءت کا تعین سورہ فاتحہ سے کر دیا ہے۔
(4) آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا﴾ کا تعلق سورہ فاتحہ کے ساتھ نہیں ہے۔ تحقیق کے لیے دیکھیے جزء القراء للبخاری (تحت ح 36) اور امام عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ”تحقیق الکلام“ وغیرہ۔ بلکہ اس آیت کریمہ کا تعلق کفار کی تردید سے ہے۔ [دیکھیے تفسیر قرطبی: 12/1، تفسیر البحر المحیط: 448/4، الکلام الحسن: 212/2]
(5)حدیث إذا قرأ فأنصتوا (جزء القراء: ح 263) ماعد الفاتحہ پر محمول ہے کیونکہ اس کے راوی، صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کا جہری نماز میں حکم دیا ہے۔ [دیکھیے حدیث نمبر 12 فائدہ: 5]
جو لوگ اسے ماعد الفاتحہ پر محمول نہیں سمجھتے، ان کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ اس کے راوی کا یہ فتویٰ ہے کہ امام کے پیچھے (جہری نمازوں میں بھی) سورہ فاتحہ پڑھو۔ حنفیوں کے نزدیک اگر راوی اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے تو وہ روایت منسوخ ہوتی ہے۔ [دیکھیے جزء القراء للبخاری تحقیقی 263]
(6)جمہور صحابہ کرام سے سورہ فاتحہ خلف الامام ثابت ہے۔ دیکھیے راقم الحروف کی کتاب الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الإمام فی الصلوة الجہریہ
(7)انصات کا مطلب مکمل خاموشی نہیں ہوتا بلکہ سکوت مع الاستماع ہے۔ سراً پڑھنا انصات کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں تفصیلاً لکھا ہے۔ [ج 3 ص 35، بعد ح 1578] اور نسائی (ج 1 ص 208 ح 1404) کی حدیث: ”پھر خاموش رہے (اور جمعہ کا خطبہ سنے) حتیٰ کہ امام نماز سے فارغ ہو جائے“ بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
(8)سورہ فاتحہ کی اتنی اہمیت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز قرار دیا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر لیا ہے، جب بندہ کہتا ہے الحمد لله رب العالمين تو میں کہتا ہوں: حمدني عبدي میرے بندے نے میری تعریف بیان کی۔ اسی طرح ہر آیت کے بعد اس کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے، یعنی سورہ فاتحہ کے ذریعے بندہ اپنے رب کے ساتھ مناجات کرتا ہے۔“