سینے پر ہاتھ باندھنا
«عن سهل بن سعد رضى الله عنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلوة»
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھے۔ [صحیح البخاری: 102/1 ح 740]
فوائد:
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا سنن نسائی مع حاشیہ السندھی: ج 1 ص 141 ح 890 ابو داود ج 1 ص 112 ح 727 اسے ابن خزیمہ (243/1 ح 48) اور (ابن حبان الاحسان 202/2 ح 485) نے صحیح کہا ہے۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے:
يضع هذه على صدره .. إلخ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ الخ مسند احمد ج 5 ص 226 ح 22313، واللفظ له، تحقیق لابن الجوزی ج 1ص 283 ح 477 و فی نسخته ج 338 وسندہ حسن
(2)سنن ابی داود ح 756 وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح سنن ابی داود کے مذکورہ باب میں ہی موجود ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ”عبد الرحمن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔ نصب الرایہ للزیلعی الخفی: 314/1
نیموی حنفی فرماتے ہیں:
وفيه عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف
اور اس میں عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ حاشیہ آثار السنن ح 330
مزید جرح کے لیے عینی حنفی کی البنایہ فی شرح الہدایہ 208/2 وغیرہ کتابیں دیکھیں۔ ہدایہ اولین کے حاشیہ 17، 102/1 میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
(3)یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران میں بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لیے ایک ہی ہے، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
(4)انس رضی اللہ عنہ سے تحت السرة (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ دیکھیے مختصر الخلافیات بیہقی: 342/1، تالیف ابن فرح الاشبیلی و الخلافیات مخطوط ج 37 ب و کتب اسماء الرجال
(5)بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے ”تحت السرة“ والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں ”تحت السرة“ کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلو بغا (کذاب بقول البقاعی / الضوء اللامع 186/6) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔
(6)حنفیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه علی المذاہب الاربعہ 251/1]