کیا تحیۃ المسجد یا سنتوں میں استخارہ کی دعا پڑھ سکتے ہیں؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

استخارہ نماز کا حکم اور تحیۃ المسجد یا سنتوں میں دعائے استخارہ پڑھنے کا مسئلہ

سوال:

کیا تحیۃ المسجد یا سنتوں میں بھی دعائے استخارہ پڑھی جا سکتی ہے؟ استخارہ نماز کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز استخارہ سنت مؤکدہ ہے، اور اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور اس کو اس بارے میں وضاحت نہ ہو کہ اس کام کا کرنا اس کے لیے بہتر ہے یا نہ کرنا بہتر ہے۔

◈ اگر کسی کام کے فائدے یا نقصان کی مکمل وضاحت ہو جائے، یعنی یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کام کا کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا، تو ایسی صورت میں استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

◈ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کام بغیر استخارہ کیے انجام دیے، کیونکہ وہ واضح تھے اور ان میں خیر و شر کا فیصلہ واضح تھا۔

◈ مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص نماز پڑھنے، زکوٰۃ ادا کرنے، حرام امور کو چھوڑنے یا کھانے، پینے اور سونے کا ارادہ کرے تو ان کاموں کے لیے استخارہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا خیر و شر معلوم ہے۔

تحیۃ المسجد اور سنتوں میں دعائے استخارہ پڑھنے کا حکم:

تحیۃ المسجد کی دو رکعت نماز میں دعائے استخارہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

◈ اسی طرح اگر سنت رواتبہ (یعنی مؤکدہ سنتیں) پہلے سے نیت کیے بغیر پڑھی جائیں تو ان میں بھی استخارہ کی دعا نہیں پڑھی جا سکتی۔

وجہ کیا ہے؟

◈ حدیث میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ استخارہ کے لیے دو مخصوص رکعت نماز پڑھی جائے۔

◈ اگر ان دو رکعتوں کو کسی اور نیت (جیسے تحیۃ المسجد یا سنت رواتبہ) سے پڑھا جائے، اور استخارہ کی نیت نہ کی جائے، تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نہیں ہوں گی۔

اگر پہلے سے استخارہ کی نیت ہو:

◈ اگر کوئی شخص تحیۃ المسجد یا سنت مؤکدہ پڑھنے سے پہلے استخارہ کی نیت کر لے اور پھر ان رکعتوں میں دعائے استخارہ پڑھ لے، تو اس صورت میں استخارہ درست ہوگا۔

◈ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ملتی ہے:

«فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ»

(صحیح البخاری، الدعوات، باب الدعاء عند الاستخارة، ح: ۶۳۸۲، التہجد، باب ما جاء فی التطوع مثنی مثنی، ح: ۱۱۶۲)

*”وہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے۔”*

◈ اس حدیث میں صرف فرض نماز کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اور دیگر نوافل کے بارے میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔

◈ تاہم، اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ استخارہ درست نہ ہو، کیونکہ حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے:

"جب ارادہ کرے تو (دو رکعت) نماز پڑھے”

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو رکعتوں کا مقصد صرف استخارہ ہونا چاہیے، نہ کہ کوئی اور۔

بہترین عمل کیا ہے؟

◈ بہتر اور افضل یہی ہے کہ استخارہ کے لیے دو الگ مستقل رکعتیں نفل کے طور پر پڑھی جائیں۔

◈ اس لیے کہ حدیث کے سیاق و سباق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نماز صرف استخارہ کی نیت سے ہونی چاہیے۔

◈ اور "فرض کے علاوہ” کہنے کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ نفل نماز ہو، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

*”وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے۔”*

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1