نماز میں سترے کا بیان
سوال:
نماز کے دوران سترے کا کیا حکم ہے اور اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے دوران سترہ رکھنا سنت مؤکدہ ہے۔ البتہ، مقتدی کے لیے الگ سے سترہ اختیار کرنا مسنون نہیں ہے کیونکہ وہ امام کے سترے پر اکتفا کرتا ہے۔
سترے کی مقدار:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سترے کی مقدار کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ»
(صحيح مسلم، الصلاة، باب سترة المصلی… ح:۵۹۹)
"کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح ہو۔”
یہ مقدار سترے کی زیادہ سے زیادہ حد ہے۔ تاہم، کم سے کم مقدار کے حوالے سے بھی احادیث موجود ہیں۔
کم از کم مقدار:
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:
«اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلْيَسْتَتِرْ لِصَلَاتِهِ وَلَوْ بِسَهْمٍ»
(مسند احمد، ح: ۴۰۴/۳ وصحيح ابن خزيمة، سترة المصلی، ح: ۸۱۱)
"جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ اختیار کرے، خواہ وہ تیر کے بقدر ہی کیوں نہ ہو۔”
اگر کوئی چیز نہ ملے:
اگر نمازی کے پاس کوئی چیز نہ ہو، تو ایک اور حدیث میں اس کے لیے یہ ہدایت ہے:
«أن منْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَخُطَّ خَطًّا»
(سنن ابي داؤد، الصلاة، باب الخط اذا لم يجد عصا، ح: ۶۸۹ وسنن ابن ماجه، اقامة الصلوات، باب ما يستر المصلی، ح: ۹۴۳ واللفظ له وصحيح ابن خزيمة، سترة المصلی: ۲/ ۱۲، ۸۱۱)
"اگر اسے کوئی چیز نہ ملے تو کم از کم لکیر ہی کھینچ لے۔”
محدثین کا موقف:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "بلوغ المرام” میں لکھا ہے کہ:
"جس کسی نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے، اس کی بات درست نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی ایسی علت نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے رد کر دیا جائے۔”
لہٰذا، ہم یہ کہتے ہیں کہ:
❀ سترے کی کم از کم مقدار: لکیر
❀ زیادہ سے زیادہ مقدار: کجاوے کے پچھلے حصے کے برابر
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب