سوال:
کیا فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت حجت ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دیوبندی مؤقف:
- دیوبندی عالم ظفر احمد تھانوی کے نزدیک، اگر حافظ ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری میں کسی روایت پر کلام نہ کیا، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ روایت صحیح یا حسن یعنی قابلِ حجت ہے۔
- اعلاء السنن، جلد ۱۹، صفحہ ۸۹
شوکانی کا حوالہ:
شوکانی یمنی نے ایک روایت کے متعلق کہا:
"اسے حافظ نے الفتح میں ذکر کیا اور اس پر کلام نہیں کیا۔”
اس قول کے بعد ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں:
’’وفیه دلیل علی ان سکوت الحافظ فی الفتح عن حدیث حجة و دلیل علی صحته او حسنه، و اللہ اعلم‘‘
(اعلاء السنن جلد ۱۹، صفحہ ۹۰، ترجمہ از ناقل)
الزام کے طور پر پیش کیا گیا اصول:
آلِ دیوبند کے اس اصول کو راقم الحروف نے اپنی کتاب تعدادِ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ میں بطورِ الزام پیش کیا ہے۔ صفحہ ۲۰
تحقیقی مؤقف:
- حقیقت یہ ہے کہ فتح الباری یا التلخیص الجبیر میں حافظ ابن حجر کا سکوت کسی حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
- حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں جن احادیث پر سکوت کیا ہے، ان میں بعض ضعیف، بہت ضعیف، بلکہ موضوع (من گھڑت) روایات بھی موجود ہیں۔
حوالہ برائے تحقیق:
انیس الساری فی تخریج و تحقیق الاحادیث التی ذکرھا الحافظ ابن حجر العسقلانی فی فتح الباری
چار موضوع احادیث کی مثالیں:
مثال اول:
حافظ ابن حجر نے کہا:
’’وفیه حدیث عند الطبرانی و ابی الشیخ عن انس رفعه: یعق عنه من الابل و البقر و الغنم‘‘
(فتح الباری ۹/۵۹۳، تحت حدیث ۵۴۷۲)
یہ روایت المعجم الصغیر للطبرانی (جلد ۱، صفحہ ۸۴، حدیث ۲۱۷) میں مسعدہ بن الیسع کی سند سے مروی ہے۔
انیس الساری جلد ۹، صفحہ ۶۷۳۱، حدیث ۴۷۴۰ میں اسے موضوع قرار دیا گیا۔
مجمع الزوائد جلد ۴، صفحہ ۵۸ پر ہیثمی نے کہا:
"اس میں مسعدہ بن الیسع ہے اور وہ کذاب ہے۔”
ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
’’هو ذاهب منکر الحدیث لا یشتغل به، یکذب علی جعفر بن محمد عندی واللہ اعلم‘‘
(کتاب الجرح و التعدیل ۸/۳۷۱)
لسان المیزان ۶/۲۳
مثال دوم:
حافظ ابن حجر نے کہا:
’’وقد اخرج ابو داود من حدیث ابی العشراء عن ابیه ان النبی صلی الله علیه وسلم سئل عن العتیرة فحسنها‘‘
(فتح الباری ۹/۵۹۸، تحت حدیث ۵۴۷۴)
یہ روایت سنن ابوداود میں نہیں بلکہ دیگر کتب میں عبدالرحمن بن قیس عن حماد بن سلمۃ عن ابی العشراء عن ابیہ کی سند سے ہے۔
ابو معاویہ عبدالرحمن بن قیس الضبی البصری کذاب راوی ہے۔
ابو زرعہ الرازی:
’’وکان کذابا‘‘
(کتاب الجرح و التعدیل ۵/۲۷۸)
حافظ ابن حجر:
’’متروک کذبہ ابو زرعہ وغیرہ‘‘
(تقریب التہذیب: ۳۹۸۹)
مزید تحقیق:
تہذیب التہذیب ۱۲/۱۶۶-۱۶۷، تہذیب الکمال ۸/۳۷۱، انیس الساری ۲/۱۱۸۴، حدیث ۸۴۳(موضوع قرار دی گئی)
مثال سوم:
حافظ ابن حجر نے کہا:
’’وروی البیهقی ان یهودیا سمع النبی صلی الله علیه وسلم یقرا سورة یوسف فجاء و معه نفر من الیهود فاسلموا کلهم‘‘
(فتح الباری جلد ۷، صفحہ ۲۷، تحت حدیث ۳۹۴۱)
یہ روایت دلائل النبوۃ للبیہقی (۶/۲۷۶) میں محمد بن مروان السدی الصغیر عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس کی سند سے ہے۔
محمد بن مروان السدی:
کذاب(الضعفاء الکبیر للعقیلی ۴/۱۳۶، صحیح سند)
حافظ ابن حجر:
’’متھم بالکذب‘‘(تقریب التہذیب: ۶۲۸۴)
الکلبی (استاد):
"المفسر منهم بالکذب و رمی بالرفض”(تقریب التہذیب: ۵۹۰۱)
"احادیثہ عن ابی صالح موضوعۃ” (المدخل الی الصحیح، ص۱۹۵، ت۱۷۱)
مزید حوالہ:
الحدیث حضرو شمارہ ۲۴، ص۵۰-۵۴
مثال چہارم:
حافظ ابن حجر نے کہا:
’’ومن حدیث بریدہ رفعہ: اللهم اجعل صلواتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی آل محمد کما جعلتها علی ابراهیم و علی آل ابراهیم و اصله عند احمد‘‘
(فتح الباری ۱۱/۱۵۹، تحت حدیث ۶۳۵۷، ۶۳۵۸)
مسند احمد (۵/۳۵۳) میں اس کی سند میں ابو داود نفیع بن الحارث الاعمی موجود ہے۔
قتادہ بن دعامہ نے فرمایا:
’’کذاب‘‘ (الکامل لابن عدی ۷/۲۵۲۳-۲۵۲۴، صحیح سند)
حاکم نیشاپوری:
"روی عن بریدة الاسلتمی و انس بن مالك احادیث موضوعة”(المدخل الی الصحیح ص۲۱۸، ت۲۱۰)
حافظ ابن حجر:
’’متروک و قد کذبہ ابن معین‘‘(تقریب التہذیب: ۷۱۸۱)
نتیجہ و خلاصہ:
- ان چار مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر کا فتح الباری میں کسی حدیث یا روایت پر سکوت کرنا اس کے صحیح، حسن یا حجت ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
- علماء کو چاہئے کہ اصل مصادر کی طرف رجوع کریں، روایت کی تحقیق کریں، اور اگر وہ صحیح یا حسن ہو تو بطورِ حجت پیش کریں۔
- اگر تحقیق ممکن نہ ہو تو محض سکوت کو دلیل نہ بنائیں اور تحقیقی محنت کو جاری رکھیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب