امام ابن خزیمہ کی تصحیح حدیث کا اصول اور صحیح ابن خزیمہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، ج ۲، ص ۳۰۳

سوال:

صحیح ابن خزیمہ اور صحیح احادیث – امام ابن خزیمہ کی تصحیح کا مفہوم کیا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابن خزیمہ النیسابوری رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب صحیح ابن خزیمہ کے آغاز میں تحریر فرمایا ہے:

"مختصر المختصر من المسند الصحیح عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم”
(صحیح ابن خزیمہ، ج ۱، ص ۳)

یہ جملہ کہنے سے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب کو "المسند الصحیح” یعنی "صحیح احادیث کا مجموعہ” قرار دے رہے ہیں۔ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحیح ابن خزیمہ میں شامل تمام احادیث امام ابن خزیمہ کے نزدیک صحیح ہیں، الاّ یہ کہ کسی حدیث کے بارے میں وہ خود اس کو ضعیف قرار دیں یا اپنے کسی تبصرے کے ذریعے ضعف کی طرف اشارہ کر دیں۔

محدثین کی وضاحت:

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے استاد حافظ ابن الملقن نے صحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث کے بارے میں لکھا:

"وصححه ابن خزیمۃ أیضا لذکره إیاه فی صحیحه”
یعنی: "اور ابن خزیمہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں ذکر کر کے صحیح قرار دیا ہے۔”
(البدر المنیر، ج ۱، ص ۶۱۹)

اہل علم اور عوام کا طریقہ:

علمائے کرام اور عام مسلمانوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ اگر امام ابن خزیمہ کسی حدیث کو صحیح ابن خزیمہ میں بغیر کسی جرح یا تنقید کے نقل کرتے ہیں، تو وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
"اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے” یا
"امام ابن خزیمہ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے”۔

مثال 1:

حدیث:

"هو الطهور ماؤه، الحلال میتته”
(یعنی: سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار (مچھلی) حلال ہے)
(صحیح ابن خزیمہ: ۱۱۱، ۱۱۲)

اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا:

"وصححه ابن خزیمۃ”
(بلوغ المرام: ۱)

یعنی: "اسے ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔”

مثال 2:

سیدنا ابو السمح رضی اللہ عنہ سے چھوٹے بچے کے پیشاب کے بارے میں ایک حدیث مروی ہے، جسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ (ج ۱، ص ۱۴۳، حدیث ۲۸۳) میں روایت کیا ہے۔

اس حدیث کے بارے میں محمد بن علی النیموی رحمہ اللہ نے فرمایا:

"وصححه ابن خزیمۃ”
(آثار السنن، ص ۳۷، حدیث: ۴۸)

یعنی: "ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔”

اگرچہ امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کے ساتھ "سندہ صحیح” کے الفاظ نہیں لکھے، پھر بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام ابن خزیمہ کسی حدیث کو اگر بغیر کسی جرح کے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ میں نقل کریں، تو یہ عمل خود اس حدیث کی تصحیح یعنی "صحیح قرار دینا” ہے۔

اہم وضاحت:

یہ تصور کرنا درست نہیں کہ صحیح ابن خزیمہ کی صرف وہی احادیث صحیح ہوں گی جن کے ساتھ امام ابن خزیمہ نے "سندہ صحیح” لکھا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ:

صرف کسی حدیث کو بغیر کسی تنقید یا جرح کے صحیح ابن خزیمہ میں ذکر کر دینا ہی امام ابن خزیمہ کی طرف سے اس حدیث کو صحیح کہنا ہے۔

نتیجہ:

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی کتاب صحیح ابن خزیمہ میں شامل وہ تمام احادیث جن پر انہوں نے کوئی ضعف یا جرح ظاہر نہیں کی، ان کے نزدیک صحیح شمار کی جاتی ہیں۔ اگر کسی حدیث کو ضعیف سمجھتے تو اس کی صراحت کرتے یا کسی تبصرے سے اس کی طرف اشارہ ضرور فرماتے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1