صحیح بخاری اور ضعیف احادیث کے متعلق سوال و جواب
❓ سوال:
کیا صحیح بخاری میں کوئی ضعیف حدیث موجود ہے؟
✅ جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی احادیث سندِ متصل کے ساتھ مروی ہیں، وہ تمام کی تمام قطعی طور پر صحیح ہیں۔ ان میں سے ایک بھی حدیث ضعیف نہیں ہے۔ اصولِ حدیث کی تمام مستند کتب میں اس بات پر اجماع منقول ہے۔
یہاں تک کہ بعض اہلِ علم سے یہ بات مروی ہے کہ:
"اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر صحیح بخاری میں کوئی ضعیف روایت ہو تو اس کی بیوی طلاق ہے، تو اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔”
(ملاحظہ ہو: مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح للعراقی، ص۳۸، ۳۹)
📚 محدثین کی رائے
شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں موجود تمام متصل اور مرفوع احادیث یقینی طور پر صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں۔ جو شخص ان کتابوں کی عظمت کو تسلیم نہ کرے، وہ بدعتی ہے اور مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلنے والا ہے۔‘‘
(حجۃ اللہ البالغہ، اردو جلد ۱، ص ۲۴۲، مترجم: عبدالحق حقانی، طبع: محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
📖 دیوبندی مکتبِ فکر کی رائے
دیوبندی علماء کی معتبر کتاب "عقائد الاسلام” میں واضح طور پر لکھا ہے:
’’اسی لیے حدیث کی کتابوں میں صحیح بخاری سب سے زیادہ قوی اور معتبر ہے، اس کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے۔‘‘
(عقائد الاسلام، ص ۱۰۰، از عبدالحق حقانی)
🛡 منکرینِ حدیث کے لیے چیلنج
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے، تمام دنیا کے منکرینِ حدیث کو یہ چیلنج دیا جاتا ہے کہ:
"اگر وہ صحیح بخاری کے اصولوں کے مطابق صرف ایک ضعیف حدیث بھی ثابت کر دکھائیں، تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔”
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:
"وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا”
ترجمہ: چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب