جس طرح عام مساجد سے نہیں روک سکتے اسی طرح حرم میں بھی خواتین کو نماز باجماعت سے نہیں روکا جا سکتا۔ پھر یہ کہ اگر خواتین نماز کے لیے مسجد حرام نہ جائیں تو کیا وہ طواف بھی نہ کریں؟ وہاں کس طرح مردوں سے الگ رہ کر طواف کریں گی؟
اس لیے ہم عرض کریں گے کہ خواتین کو مسجد حرام میں نماز باجماعت اور طواف سے نہیں روکا جا سکتا البتہ خواتین کو چاہیے کہ وہ پردے کا اہتمام کریں اور مردوں سے حتی الامکان اختلاط سے بچیں۔ اس سلسلے میں شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر خواتین کے لیے یا اُن کی طرف سے کسی فتنے کا خوف نہ ہو تو اُن کا نماز تراویح کے لیے مسجد جانا جائز ہے۔“
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تمنعوا إماء الله مساجد الله
”اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے مت روکو۔“
(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب خروج النساء إلى المساجد، حدیث: 990)
سوال یہ ہے کہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا تو پھر آج چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خواتین کو اس اہم دینی فریضہ سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں کئی سوال جواب طلب ہیں:
❀ کیا تمام کی تمام خواتین بے راہ رو ہو گئی ہیں؟ کیا سب نے اللہ کا دین چھوڑ دیا ہے؟
❀ معاشرے میں بے راہ رو خواتین کی سزا کیا ان تمام خواتین کو دی جا سکتی ہے جو دین پر چلتے ہوئے عبادات کے امور انجام دینا چاہتی ہیں؟
❀ اگر کوئی شخص فیملی کے ساتھ سفر پر جاتا ہے تو مرد تو کسی نہ کسی مسجد میں فرض نماز ادا کر لیتے ہیں۔ کیا خواتین اس دینی فریضہ کو ترک کر دیں؟ اور وہ نماز جیسے اہم رکن کو اس لیے پس پشت ڈال دیں گی کہ وہ عورت ہیں اور مسجد میں جانے کی اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں؟
❀ بے پردگی کے علاوہ اور بھی بہت سی خرافات معاشرے میں در آئی ہیں، کیا ان کو درست کرنے کے لیے دین کے دوسرے اعمال سے بھی مردوں یا خواتین کو روک دیا جائے گا؟
ایک طرف بے پردگی اور جدید فیشن کا یہ مظاہرہ ہے کہ بغیر شرعی پردہ خواتین جدید اور مغربی لباس پہنے رات دن شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں، تفریحی مقامات پر جاتی ہیں، اسمبلیوں میں مردوں کے شانہ بشانہ بحث و مباحثہ میں حصہ لیتی ہیں۔ بینکوں، فیکٹریوں اور دوسرے اداروں میں بے پردہ کام کرتی ہیں۔ ان کو تو کوئی روکنے والا نہیں اور دوسری طرف وہ خواتین جو اسلامی اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسجد جانا چاہتی ہیں، انہیں روکا جا رہا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چھ آدمیوں پر میں نے لعنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان پر لعنت بھیجتا ہے اور ہر نبی کی دعا مقبول ہے:
1. جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے۔
2. جو تقدیر کو جھٹلائے۔
3. جو شخص جبراً حکومت پر قابض ہو کر عزت والوں کو ذلیل کرے اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشے۔
4. جو اللہ تعالیٰ کے حرم کو ملال (یعنی بیت اللہ کی بے حرمتی) کرے۔
5. میری اولاد کو اللہ تعالیٰ نے تکلیف پہنچانا حرام کیا ہے اس کو حلال سمجھنے والا۔
6. جو میری سنت کو ترک کرے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ کسی آیت یا حدیث کے مقابلے میں کسی بھی شخص کی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ جب حدیث معلوم ہے کہ خواتین کو مسجد جانے سے نہ روکو تو پھر ہم کیسے روک سکتے ہیں؟ مساجد میں خواتین کے لیے الگ انتظام نہ کر کے عملی طور پر خواتین کو مساجد سے روکا جا رہا ہے اور حدیث کی جان بوجھ کر مخالفت کی جا رہی ہے۔ ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہیں اور جو خاموش رہے گا وہ روکنے والوں کا مددگار ہوگا۔ فتنے کا باعث بننے والی خواتین کو پرامن طریقے سے سمجھانے کی بجائے ہم ان خواتین کو روک رہے ہیں جو نماز جمعہ میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔ وہ دین سیکھ کر اپنی اور اپنی اولاد کی اصلاح چاہتی ہیں۔ ہم ان کی اصلاح کے مواقع ختم کر کے انہیں دین سے روک رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اجازت کب اور کس نے ختم کی؟ کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہیں تھا کہ فتنوں کا دور آنے والا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی تعلیم کو فرض قرار دیا ہے۔ اُن کے لیے مسجد کے دروازے کھولے، الگ سے وعظ و نصیحت کا اہتمام فرمایا اور عیدین کے مواقع پر حاضر ہونے کا حکم دیا۔ حتیٰ کہ حائض عورت کو بھی حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اگر خواتین کے لیے مسجد سے دور رہنا اتنا ہی ضروری تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کو مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے۔
ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ کیا کوئی ایسی قرآنی آیت یا حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ علماء وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے قرآن و حدیث کے احکام تبدیل کر سکتے ہیں یا ان کے احکام کو وقتی مصلحت کے تحت روک سکتے ہیں؟ فتنوں کے خوف سے اگر عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا جا سکتا ہے تو کیا یہ فتنے مردوں کے لیے کم ہیں؟ آئے دن کی قتل و غارت، دنگا فساد اور ٹارگٹ کلنگ مساجد میں جانے سے کیا مانع نہیں ہے؟
عورت گھر پر نماز ادا کرے یا مسجد میں، اس کا فیصلہ خود سے کرنا چاہیے۔ اگر کوئی عورت اپنے لیے خوف محسوس کرتی ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ گھر پر نماز پڑھے اور اگر وہ مسجد میں آنے کے لیے اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتی ہے تو اسے مسجد میں آنے سے نہیں روکنا چاہیے بلکہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ سے دروازے اور جگہ کا اہتمام کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر دینی چاہیے۔ عیدین کی نماز میں تو خواتین کو شامل ہونے کا تاکیدی حکم ہے۔ لہذا خواتین کے اجتماع کے لیے بالکل علیحدہ خیموں کا اہتمام ہونا چاہیے۔
جب کہ عملاً اس سے بھی انہیں روک دیا گیا ہے۔ علماء کو ایسی روش اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے ایک واضح حکم کو مجموعی طور پر ترک کر دیا جائے۔ سب خواتین ایسی فتنہ کا شکار نہیں ہیں۔ ان میں الحمد للہ نیک سیرت بھی ہیں اور نیک نیت سے معاشرے کی اصلاح چاہتی ہیں۔
علاوہ ازیں فتنوں کے اس دور میں جب کہ مردوں کو معاشی سرگرمیوں سے ہی فرصت نہیں، کیا خواتین کو دینی احکام کی تعلیمات نہیں دینی چاہئیں؟ اگر ایسا سوچ لیا گیا تو بچوں کی اصلاح کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟ فتنہ یہ ہے کہ عورت کو ہر جگہ جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اگر روکا جا رہا ہے تو مسجد جانے سے، حالانکہ ایسا کرنا دین و دنیا کا خسارہ ہی خسارہ ہے۔
الحمد لله اب مسلمانوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے۔ ان میں اکثر و بیشتر ہر سال حج و عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ کا سفر کرتے ہیں اور یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی میں سفر کیا جاتا ہے نہ کہ کسی پیر و مرشد یا امام کے کہنے پر۔ اس لیے آبادی کے بڑھ جانے سے یہ حکم منسوخ یا تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام میں اکثر رش ہوتا ہے۔ رمضان اور حج کے دنوں میں تو رش اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس دوران مرد و زن کے اختلاط سے بچنے کے لیے ممکن حد تک انتظامات کیے گئے ہیں۔ اگر طریقے سلیقے سے حرم میں داخل ہوا جائے اور خواتین اپنے لیے مخصوص جگہ پر ہی عبادات میں مشغول رہیں تو اختلاط کی نوبت ہی نہیں آتی۔ طواف کے دوران اگر مرد و زن کا آمنا سامنا ہو جائے تو اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خواتین مردوں کے لیے رستہ چھوڑ دیں اور مرد نظریں نیچے رکھتے ہوئے خواتین سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ کیا تھوڑی سی سمجھ بوجھ سے کام لے کر حرم میں ایک نماز پڑھ کر ایک لاکھ نماز کے ثواب سے محروم رہنا خسارے کا سودا نہیں؟ یقیناً یہ بہت بڑے خسارے کا سودا ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے دور دراز کی مسافتیں طے کر کے محض ہوٹل میں آرام کرنے کی بجائے حرم میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنا بدرجہا بہتر ہے۔ لوگ مسجد میں عبادت کی غرض سے جاتے ہیں نہ کہ کسی اور نیت سے۔ حرم میں جا کر گناہگار ترین شخص کی نظریں بھی جھک جاتی ہیں۔ اس لیے اگر اتفاقاً غیر محرم سے آمنا سامنا ہو بھی جائے تو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی نگاہوں کو دوسری طرف پھیر لینا چاہیے نہ کہ خواتین کو مسجد میں جانے سے ہی روک دیا جائے۔ اسلام اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ آئندہ آبادی بڑھ جائے گی۔ اگر اختلاط سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ٹوک الفاظ میں آئندہ زمانے کے لوگوں کو منع فرما دیتے کہ اختلاط کے خوف سے خواتین مسجد حرام میں داخل نہ ہوں۔ اُن کے لیے طواف بھی ضروری نہ ہوتا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ جہاں تک مسجد نبوی کا تعلق ہے تو وہاں عورتوں کے لیے حمامات (وضو خانے) الگ ہیں، مسجد میں داخل ہونے کے دروازے الگ ہیں اور جائے نماز کے لیے جگہ بھی الگ سے مختص کی گئی ہے۔ وہاں اختلاط کا کوئی موقع نہیں۔ اگر کوئی اپنی کم علمی اور جہالت کی بنا پر ایسا کرتا ہے تو اس امر کا اطلاق ہر ایک پر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔
عصر حاضر میں معاشی سرگرمیوں کو بہانہ بناتے ہوئے گھر سے باہر کی بہت سی ذمہ داریاں خواتین پر ڈال دی گئی ہیں۔ مثلاً گھر کے لیے سودا سلف خریدنا، یوٹیلٹی بلز ادا کرنا، بچوں کو اسکول لانا لے جانا اور اسکول سے متعلق امور کے لیے وہاں جانا، گھروں کی مرمت کے لیے مزدوروں اور کاریگروں سے معاملات طے کرنا اور ان سے کام کرانا، کسی بیمار کو اسپتال لے جانا، مہمانوں کو اسٹیشن اور ایئرپورٹ سے لانا اور لے جانا، بچوں سمیت پارک اور صحت افزا مقامات پر سیر و تفریح کی غرض سے جانا، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات جن میں عورتوں سے زیادہ مردوں کو جانا چاہیے، وہ ذمہ داری عورتوں نے قبول کر رکھی ہے یا ان پر ڈال دی گئی ہے اور اس سلسلے میں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ حالانکہ اس میں بعض اوقات بہت سے مفسدات ہوتے ہیں۔ اگر انہیں قبول کر لیا گیا ہے تو مسجد یا کسی دینی ادارے میں جانے میں ہی کیوں کر فساد اور شر نظر آتا ہے؟
لطف کی بات یہ ہے کہ اب تو تبلیغی جماعت والے حضرات بھی اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی تبلیغ کے لیے تیار کیا جائے۔ مولانا طارق جمیل حفظہ اللہ نے اپنے ایک خطاب میں خواتین سے درد مندانہ اپیل کی کہ وہ تبلیغ کے لیے نکلیں تا کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی دور ہو۔ اگر خواتین تبلیغ کے لیے گھروں سے نکل سکتی ہیں تو نماز باجماعت، جمعہ اور نماز تراویح کے لیے تو بدرجہ اولیٰ نکلنا افضل ہے۔
ہمارے خیال میں جو لوگ خواتین کو مسجد میں جانے سے روکتے ہیں وہ کئی ایک پہلوؤں کو نظر انداز کر رہے ہیں:
1. واضح حدیث کی مخالفت کر رہے ہیں۔
2. خواتین کو مسجد سے دور رکھ کر انہیں دین سیکھنے کے عملی میدان سے دور رکھ رہے ہیں۔ یوں مغربی پروپیگنڈے کے مددگار بن رہے ہیں کہ اسلام میں خواتین کے کوئی حقوق نہیں اور انہیں جانوروں کی طرح قید کر کے رکھا جاتا ہے۔
3. معاشرے میں موجود بے راہ رو خواتین کی حوصلہ افزائی اور باپردہ خواتین کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ یوں محض خواتین کو دین سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک ایسے حق سے جو انہیں اسلام نے دیا ہے، چھین رہے ہیں۔ جس میں ہم سب کے لیے دین اور دنیا دونوں جہان کا خسارہ ہے۔
فلاح کی ضمانتیں
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾
(23-المؤمنون:1-5)