حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق سوالات اور ان کے جوابات
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
ذیل میں حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق تین اہم سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں جو مختلف عقائد اور افکار کو واضح کرنے میں مددگار ہوں گے:
(۱) کیا حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ نے جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے پر اپنے تمام دانت توڑ دیے؟
- جواب: یہ بات کہ حضرت اویس بن عامر القرنی رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کے شہید ہونے پر اپنے سارے دانت توڑ دیے، بے بنیاد اور من گھڑت روایت ہے جو جاہل عوام میں مشہور ہو گئی ہے۔
- محدثین کی کتب میں اس واقعہ کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا۔
- اپنے آپ کو نقصان پہنچانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
(۲) کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، خاص طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ وہ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے دعا کروایا کریں؟
- جواب: علمائے کرام کے مابین حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں اختلاف رہا، تاہم صحیح اور محقق بات یہی ہے کہ ان کا وجود ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان خیر التابعین رجل یقال له اویس، وله والدة، وکان به بیاض، فمروه فلیستغفرلکم»
تابعین میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جسے اویس کہا جاتا ہے، اس کی ایک والدہ ہے اور اس کے جسم میں سفید داغ ہے، تم لوگ اس سے دعا کروانا۔
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی، حدیث 2542، ترقیم دارالسلام: 6491)
- اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو خاص طور پر قبول فرماتا تھا۔
- صحیح مسلم کی دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اویس رحمہ اللہ، اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے، اور اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی شامل تھی۔
- حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق کوئی ذکر موجود نہیں، تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے دعا کی درخواست کی۔
(صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: 6492)
اہم نکتہ:
کسی افضل شخص کا مفضول (کم درجہ والا) شخص سے دعا کروانا کوئی توہین کی بات نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے افضل تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان سے بارش کے لئے دعا (استسقاء) کروائی۔
دیکھئے: صحیح بخاری، حدیث 1010، 3710
وضاحت:
حضرت اویس رحمہ اللہ خود بھی دوسرے مفضول اور غیر افضل افراد سے دعا کروایا کرتے تھے۔
دیکھئے: صحیح مسلم، حدیث 6492، ترقیم دارالسلام
لہٰذا اس قسم کی باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۳) حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے کیونکہ وہ والدہ کی خدمت میں مشغول تھے۔ لیکن کیا یہ حدیث درست ہے کہ کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں؟
- جواب: اس بات میں کوئی شک نہیں کہ:
“کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔”
دیکھئے: صحیح بخاری، حدیث 15 و صحیح مسلم، حدیث 44
- تاہم اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام لانے والے ہر تابعی پر لازم تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا، چاہے کوئی شرعی عذر کیوں نہ ہو۔
- حضرت اویس رحمہ اللہ کا مدینہ منورہ تشریف نہ لانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے تھا۔ اگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہوتا تو آپ انہیں مدینہ آنے کا حکم ضرور فرماتے۔
تنبیہ:
- حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق جو روایت امام مسلم نے بیان کی ہے، وہ صحیح ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
- امام بخاری کا اس روایت پر جرح کرنا درست نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب