پانچ ماہ کے حمل کے اسقاط پر نماز جنازہ کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

پانچ ماہ کے حمل کے اسقاط پر نماز جنازہ کا حکم

سوال:

اگر ماں کے پیٹ میں موجود بچہ پانچ ماہ کا ہو اور اس کا حمل گر جائے، تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر حمل گرنے والا بچہ کم از کم چار ماہ کا ہو چکا ہو، تو شریعت کے مطابق:

اسے غسل دیا جائے گا

اسے کفن پہنایا جائے گا

اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی

اس کی وجہ یہ ہے کہ چار ماہ کی مدت مکمل ہونے پر بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے، اور وہ زندہ انسانوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔

حدیث نبوی ﷺ:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّ أَحَدَکُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نطفة ثُمَّ يَکُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَکُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَبْعَثُ اليهُ الملک ، َ فيُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ»

(صحیح بخاری: 3208)

یعنی:
"تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفے کی صورت میں ہوتی ہے، پھر چالیس دن تک وہ لوتھڑا بن جاتا ہے، اور پھر چالیس دن تک بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے، جو آ کر اس میں روح پھونکتا ہے۔”

مدت کی وضاحت:

یہ مجموعی طور پر 120 دن یعنی چار ماہ بنتے ہیں۔
لہٰذا:

❀ اگر حمل چار ماہ یا اس سے زیادہ مدت کے بعد گرے، تو:

❀ غسل دیا جائے گا

❀ کفن پہنایا جائے گا

❀ نماز جنازہ پڑھی جائے گی

❀ اور قیامت کے دن وہ دیگر انسانوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

❀ لیکن اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو، تو:

❀ نہ غسل دیا جائے گا

❀ نہ کفن پہنایا جائے گا

❀ نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی

❀ اور اسے عام جگہ کسی بھی طرح دفن کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ صرف گوشت کا ٹکڑا ہے، انسان نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1