حضرت حسینؓ کی شہادت پر خواب کی روایت اور اسناد کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، صفحہ 268

شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ اور خواب کی روایت کی تحقیق

سوال:

ابن عباسؓ سے منقول خواب کی ایک روایت موجود ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں گرد آلود چہرے اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دیکھا گیا۔ ان کے ہاتھ میں خون سے بھری ہوئی بوتل تھی۔ حضرت ابن عباسؓ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ خون کی بوتل کیسی ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں میدانِ کربلا سے آ رہا ہوں اور تمام دن حضرت حسینؓ اور ان کے اہلِ خانہ کا خون جمع کرتا رہا ہوں۔‘‘
(مظاہر حق جدید، صفحہ نمبر 793؛ امام بیہقی، مسند احمد)

کچھ شیعہ حضرات نے ان احادیث پر اعتراضات کیے ہیں اور ان کی اسناد کو مشکوک قرار دیا ہے۔ ان اعتراضات کے جواب میں درج ذیل تحقیق پیش کی جاتی ہے، جو قرآن، حدیث اور علم اسماء الرجال کی روشنی میں ہے۔

روایت کا اصل ماخذ

یہ روایت مظاہر حق قدیم (جلد 5، صفحہ 738) اور مشکوٰۃ المصابیح (حدیث نمبر 6181) میں دلائل النبوۃ للبیہقی (جلد 6، صفحہ 471) اور مسند احمد (جلد 1، صفحہ 242، حدیث 2165) کے حوالہ سے مذکور ہے۔

متنِ حدیث:

عن ابن عباس انه قال: رایت النبی صلی الله علیه وسلم فیما یری النائم ذات یوم بنصف النهار اشعث اغبر، بیده قارورة فیها دم، فقلت: بابی انت و امی ماهذا؟ قال: «هذا دم الحسین و اصحابه، لم ازل التقطه منذ الیوم، فاحصی ذلک الوقت فاجد قتل ذلک الوقت»

ابن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے دوپہر کے وقت نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور چہرہ گرد آلود تھا۔ آپ کے ہاتھ میں خون سے بھری ہوئی بوتل تھی۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے، میں صبح سے اسے جمع کر رہا ہوں۔‘‘
ابن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے اس وقت کو یاد رکھا تو معلوم ہوا کہ اسی وقت حضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی تھی۔

روایت کی تخریج

اس روایت کو درج ذیل محدثین نے نقل کیا ہے:

مسند احمد (جلد 1، صفحہ 242، حدیث 2165؛ جلد 1، صفحہ 283، حدیث 2553؛ فضائل الصحابہ، جلد 2، صفحہ 779، حدیث 1381)
طبرانی (المعجم الکبیر، جلد 3، صفحہ 110، حدیث 2822؛ جلد 12، صفحہ 185، حدیث 12837)
حاکم (المستدرک، جلد 4، صفحہ 397-398، حدیث 8201)
بیہقی (دلائل النبوۃ، جلد 6، صفحہ 471)
ابن عساکر (تاریخ دمشق، جلد 14، صفحہ 228)

یہ روایت حماد بن سلمہ عن عمار بن ابی عمار عن ابن عباس کی سند سے مروی ہے۔
امام حاکم اور امام ذہبی دونوں نے اسے صحیح مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

امام ابن کثیر الدمشقی کا قول:

"تفرد بہ احمد و اسنادہ قوی”
اسے صرف امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند قوی ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ، جلد 8، صفحہ 202)

محدثین کی آراء برائے حماد بن سلمہ

شیخ وصی اللہ بن محمد عباس المدنی:

"اسنادہ صحیح”
اس کی سند صحیح ہے۔
(تحقیق فضائل الصحابہ، جلد 2، صفحہ 779)

حماد بن سلمہ کا مقام:

صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے مرکزی راوی
✿ صحیح مسلم کی کئی احادیث میں ان کی روایات حجت کے طور پر لی گئی ہیں

محدثین کی جروحات و تعدیلات:

امام یحییٰ بن معین:
"حماد بن سلمۃ ثقۃ”
(الجرح والتعدیل، جلد 3، صفحہ 142)

العجلی المعتدل:
"بصری، ثقہ، رجل صالح، حسن الحدیث”
(التاریخ بترتیب الہیثمی والسبکی، صفحہ 354)

یعقوب بن سفیان:
"وھو ثقۃ”
(المعرفۃ والتاریخ، جلد 2، صفحہ 661)

احمد بن حنبل:
سوالات ابن ہانی
(2130، 3131)
موسوعہ اقوال الامام احمد بن حنبل
(جلد 1، صفحہ 299)

ابن حبان، ابن شاہین، ترمذی، ابن الجارود، حاکم، ابن خزیمہ، ساجی اور دیگر محدثین نے بھی حماد بن سلمہ کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حافظ ذہبی:

"الامام الحافظ شیخ الاسلام”
(تذکرۃ الحفاظ، جلد 1، صفحہ 202، ترجمہ 197)
"ولم ینحط حدیثہ عن رتبة الحسن”
(سیر اعلام النبلاء، جلد 7، صفحہ 446)

حافظ ابن حجر:

"ثقۃ، عابد، اثبت الناس فی ثابت، و تغیر حفظہ باخرۃ”
(تقریب التہذیب، حدیث 1499)

روایت کی استنادی اہمیت

✿ روایت کرنے والے جیسے عبدالرحمن بن مہدی، عفان، حسن بن موسیٰ الاشیب کی روایات صحیح مسلم میں بطور حجت موجود ہیں۔
✿ ان محدثین سے لی گئی احادیث قبل از اختلاط ہیں، اس لیے ان پر اختلاط کی جرح مردود ہے۔
(مقدمہ ابن الصلاح، صفحہ 466، دوسرا نسخہ صفحہ 499)

نتیجہ

یہ روایت صحیح ہے یا حسن لذاتہ کے درجے پر فائز ہے۔ اس کی اسناد قوی اور معتبر محدثین سے ثابت ہیں۔ راویانِ حدیث پر اعتماد کیا گیا ہے اور ان پر کی گئی جرحات ناقابل قبول ہیں کیونکہ وہ روایات اختلاط سے پہلے کی ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1