خواتین کا طریقہ نماز صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس محمد ایوب سپرا کی کتاب خواتین کا مسجد نماز میں باجماعت پڑھنے کا مسئلہ سے ماخوذ ہے۔

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على النبى الكريم وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين
نماز کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾
(4-النساء:103)
پس نماز قائم کرو، یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان
”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: 1. اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ 2. نماز قائم کرنا۔ 3. زکوٰة ادا کرنا۔ 4. حج کرنا اور 5. رمضان کے روزے رکھنا۔“
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أرکان الإسلام، حدیث: 113)
نماز کی فرضیت کی اہمیت ذیل کی حدیث میں ملاحظہ فرمائیں:
بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة
”مومن اور کافر کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے۔“
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان إطلاق اسم الكفر على من ترک الصلاة، حدیث: 247)
چنانچہ ہر مسلمان مرد و عورت پر رات دن میں پانچ مقررہ اوقات میں نماز فرض ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نماز کی تعلیم و تربیت بچپن سے ہی دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں ترک صلاۃ پر مارو اور ان کے بستر جدا کر دو۔“
(سنن ابی داود، حدیث: 494)

نماز کا طریقہ: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق

اس فرض کی ادائیگی کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیں:
صلوا كما رأيتموني أصلي
”تم نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔“
(صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب الأذان للمسافر، حديث: 631)

مرد و خواتین کی نماز میں فرق؟ ایک تحقیقی جائزہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم عام ہے جس میں مرد و خواتین سبھی شامل ہیں۔ اس لیے احادیث مبارکہ میں جو ہیئت اور طریقہ نماز مردوں کے لیے بیان کیا گیا ہے، وہی طریقہ خواتین کے لیے بھی ہے۔ قرآن و حدیث میں خواتین کے لیے الگ سے کوئی ہیئت بیان نہیں ہوئی۔
تکبیر تحریمہ یعنی الله أكبر سے شروع ہونے والی نماز السلام عليكم ورحمة الله کہتے ہوئے اختتام تک مرد و زن کے لیے ایک ہی طریقہ اور ایک ہی ہیئت کی نماز ہے۔ مرد و زن سب کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ، جلسہ استراحت حتیٰ کہ ہر ہر مقام پر پڑھی جانے والی تسبیحات اور دعائیں بھی یکساں ہیں۔

رفع الیدین اور رکوع و سجدہ کی سنت ہیئت

نماز کی ہیئت کے بارے میں ایک مفصل حدیث ابو داود میں موجود ہے:
محمد بن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو سنا، انہوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دس افراد کی جماعت میں کہا، اور ان میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، کہ میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے طریقے کو جانتا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیسے؟ اللہ کی قسم! تم کوئی ہم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے تو نہیں ہو یا ہماری نسبت زیادہ قدیم الصحبت تو نہیں ہو۔ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ صحابہ نے کہا: اچھا تو بیان کرو۔ ابو حمید نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اُٹھاتے، حتیٰ کہ وہ آپ کے کندھوں کے برابر آ جاتے، پھر الله أكبر کہتے۔ پھر آپ قرأت فرماتے۔ پھر الله أكبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے حتیٰ کہ دونوں کندھوں کے برابر آ جاتے۔ پھر رکوع کرتے اور اپنی ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھتے اور اعتدال و سکون سے رکوع کرتے، نہ سر کو جھکاتے اور نہ اوپر اُٹھائے ہوئے ہوتے، پھر رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے، پھر اپنے ہاتھ اُٹھاتے حتیٰ کہ کندھوں کے برابر آ جاتے اور خوب اعتدال و سکون سے کھڑے ہوتے۔ پھر اللہ أكبر کہتے اور سجدہ کرتے۔ پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ لیتے اور اس کے اوپر بیٹھ جاتے اور سجدے میں اپنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ موڑ لیتے، پھر دوسرا سجدہ کرتے، پھر الله أكبر کہہ کر اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھ جاتے، حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ پر لوٹ آتی۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کرتے۔ پھر جب دو رکعتوں سے تیسری رکعت کے لیے اُٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاتے، حتیٰ کہ کندھوں کے برابر آ جاتے، جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت اُٹھاتے تھے (یعنی رفع الیدین کرتے)۔ پھر بقیہ نماز میں اسی طرح کرتے، حتیٰ کہ جب آپ اس سجدہ میں ہوتے، جس میں سلام کہنا ہوتا، تو تشہد میں اپنے بائیں پاؤں کو آگے کر دیتے اور سرین کے بائیں حصے پر بیٹھ جاتے۔ سب صحابہ نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی نماز پڑھا کرتے تھے۔
(ابو داود، کتاب الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ، حدیث: 730)
اس مفصل حدیث میں مرد و زن کے لیے ایک ہی طریقہ نماز اور ہیئت بیان ہوئی ہے۔ کہیں بھی خواتین کے لیے کسی رکن سے استثناء یا ہیئت مختلف بیان نہیں ہوئی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نے ابو حمید رضی اللہ عنہ سے خواتین کے لیے الگ سے ہیئت بیان کرنے کے لیے کہا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا:
افتتح التكبير فى الصلاة فرفع يديه حين يكبر حتى يجعلهما حذو منكبيه وإذا كبر للركوع فعل مثله وإذا قال سمع الله لمن حمده فعل مثله وقال ربنا ولك الحمد ولا يفعل ذلك حين يسجد ولا حين يرفع رأسه من السجود
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اُٹھا کر لے جاتے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے، اور جب سمع الله لمن حمده کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور ربنا ولك الحمد کہتے۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت (رفع الیدین) نہیں کرتے تھے۔“
(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب إلى أين يرفع يديه، حدیث: 738)
ایک دوسری حدیث میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا:
كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع
”نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع کے لیے الله أكبر کہتے۔“
(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب رفع اليدين في التكبيرة الأولى، حدیث: 735)
ان دونوں احادیث میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رفع الیدین کی ہیئت بیان فرمائی ہے لیکن خواتین کے لیے ہیئت کا الگ سے کہیں ذکر نہیں کیا۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت کے بارے میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
فتطلعت إليه فقام فكبر ورفع يديه حتى حاذتا بأذنيه ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ کانوں تک پہنچے، پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت، اس کے جوڑ اور کلائی پر رکھا۔“
(سنن النسائی، کتاب الافتتاح، باب موضع اليمين من الشمال في الصلاۃ، حدیث: 890)
سیدنا سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة
”لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع (کلائی) پر رکھیں۔“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة، حدیث: 740)
گویا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھا جائے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے اور دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہو جائے۔
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔“
(مسند احمد، حدیث: 226/5)
سینے پر ہاتھ باندھنے کی صحیح احادیث ابن خزیمہ اور مسند احمد میں موجود ہیں لیکن دونوں راویوں نے مرد و زن کے ہاتھ باندھنے میں کوئی فرق بیان نہیں کیا۔ امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے، انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه قال ابن شهاب: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: آمين
”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہو گئی، اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمين کہتے تھے۔“
(البخاری، کتاب الاذان، باب جهر الإمام بالتأمين، حدیث: 780)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قال الإمام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ فقولوا آمين فإنه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
“جب امام ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس نے فرشتوں کے ساتھ آمین کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔”
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب جهر المأموم بالتأمين، حدیث: 782)

تشہد، جلسہ، قومہ اور تورک کا صحیح طریقہ

محمد بن عمرو عامری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں تھا تو وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر شروع ہو گیا۔ ابو حمید رضی اللہ عنہ نے کہا:
فإذا ركع أمكن كفيه من ركبتيه وفرج بين أصابعه ثم هصر ظهره غير مقنع رأسه ولا صافح بخده وقال فإذا قعد فى الركعتين فعد على بطن قدمه اليسرى ونصب اليمنى فإذا كان فى الرابعة أفضى بوركه اليسرى إلى الأرض وأخرج قدميه من ناحية واحدة
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو اپنی ہتھیلیوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑ لیتے اور اپنی انگلیوں کو کھول لیتے اور اپنی کمر کو دہرا کرتے۔ سر نہ تو اٹھا ہوتا اور نہ اپنے رخسار کو ادھر اُدھر موڑا ہوتا (بلکہ سیدھا قبلہ رخ ہوتا)۔ مزید کہا: اور جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور دائیں کو کھڑا کر لیتے اور جب چوتھی رکعت میں بیٹھتے تو اپنی بائیں ران کو زمین پر رکھ دیتے اور اپنے بائیں پاؤں کو دوسری جانب نکال لیتے۔“
(ابو داود، کتاب الصلاة، باب افتتاح الصلاة، حدیث: 731)
اس حدیث مبارکہ میں رکوع، تشہد اور چار رکعتوں والی نماز میں آخری تشہد کی بیٹھک بیان ہوئی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جملہ ولا صافح بخده (رخسار کو ادھر اُدھر نہ موڑا ہوتا) ضعیف ہے۔
ابو داود میں ہی رکوع کی ہیئت مزید وضاحت کے ساتھ یوں بیان ہوئی ہے:
ابو حمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ثم ركع فوضع يديه على ركبتيه كأنه قابض عليهما ووتر يديه فتجافى عن جنبيه
”پھر رکوع کیا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا گویا انہیں پکڑے ہوئے ہوں اور اپنے ہاتھوں کو تانت بنایا (جو کمان پر ہوتا ہے) اور اپنے ہاتھوں کو اپنے پہلوؤں سے دور رکھا۔“
(ابو داود، کتاب الصلاة، باب افتتاح الصلاة، حدیث: 734)
رکوع کے بعد قومہ کی ہیئت ابو الولید رحمہ اللہ سے روایت کردہ حدیث میں ملاحظہ فرمائیں۔ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے ثابت بنانی سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ:
كان أنس ينعت لنا صلاة النبى صلى الله عليه وسلم فكان يصلي فإذا رفع رأسه من الركوع قام حتى نقول قد نسي
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بتلاتے تھے، آپ نماز پڑھتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو اسی دیر تک کھڑے رہتے کہ ہم سوچنے لگتے کہ آپ بھول گئے ہیں۔“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الاطمأنينة حين يرفع رأسه من الركوع، حدیث: 800)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
كان ركوع النبى صلى الله عليه وسلم وسجوده وإذا رفع من الركوع وبين السجدتين قريبا من السواء
”نبي كريم صلى الله عليه وسلم كا ركوع، سجده، ركوع سے سر اٹهانے كے بعد (يعني قومه) اور دونوں سجدوں كے درميان بيٹهنے كا وقت تقريبا برابر برابر هوتا تها.“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الاطمأنينة حين يرفع رأسه من الركوع، حدیث: 801)
عہد بن زیتون رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رأيت أم الدرداء ترفع كفيها حذو منكبيها حين تفتتح الصلاة فإذا قال الإمام وسمع الله لمن حمده رفعت يديها قالت اللهم ربنا لك الحمد
”میں نے ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتیں تو اپنی ہتھیلیاں اپنے کندھوں تک اٹھاتیں اور جب امام رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع الله لمن حمده کہتا تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتیں (یعنی رفع الیدین کرتیں) اور کہتیں اللهم ربنا لك الحمد .
(تهذيب الكمال، جلد: 12، صفحہ: 60)

سجدہ اور اس کی ممنوعہ شکلیں

قومہ کے بعد سجدہ میں جانے کی ہیئت کے بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه
”جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو ایسے نہ بیٹھے (سجدہ کرے) جیسے اونٹ بیٹھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔“
(ابو داود، كتاب الصلاة، باب كيف يضع ركبتيه قبل يديه، حديث: 840)
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أمرت أن أسجد على سبعة أعظم على الجبهة وأشار بيده على أنفه واليدين والركبتين وأطراف القدمين ولا تكفت الشباب والشعر»
”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے: پیشانی پر، اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا، اور دونوں ہاتھ، اور دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر، اس طرح کہ ہم نہ کپڑے سمیٹیں نہ بال۔“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب السجود على الأنف، حدیث: 812)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اعتدلوا فى السجود ولا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب
”سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھو اور تم میں سے کوئی اپنے بازو اس طرح نہ بچھائے جیسے کتا بچھاتا ہے۔“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب لا يفترش ذراعيه في السجود، حدیث: 822)
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے سجدے کی حالت میں اپنے بازووں کو زمین پر بچھانے سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ اس طرح کرنے کو کتے کے بیٹھنے کے ساتھ تشبیہ دی۔ اس تشبیہ میں مذمت کا اظہار نہایت زیادہ اور سخت الفاظ میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح زمین پر بازو بچھانا سستی اور کاہلی کی بھی نشانی ہے۔

ام درداء رضی اللہ عنہا کا عملی نمونہ

اس لیے سجدہ کی ہیئت کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ایسا کرے تو نماز مکروہ تنزیہی ہو گی۔ یاد رہے کہ آپ کے اس خطاب میں بھی مرد و زن دونوں شامل ہیں اور ان کے سجدہ کی ہیئت کا کوئی فرق بیان نہیں فرمایا گیا۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری میں ام درداء رضی اللہ عنہا کا یہ عمل بھی موجود ہے کہ وہ نماز میں مردوں ہی کی طرح بیٹھتی تھیں:
وكانت أم الدرداء تجلس فى صلاتها جلست الرجل
”ام درداء رضی اللہ عنہا اپنی نماز میں اس طرح بیٹھتی تھیں جیسے مرد بیٹھتے ہیں۔“
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب سنة الجلوس في التشهد، حدیث: 827)
گویا تشہد میں عورت اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی چار زانوں نہیں بیٹھے گا بلکہ دونوں ہی سنت کے مطابق بیٹھیں گے اور سنت کے مطابق بیٹھنا کس طرح ہے؟ وہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمة الباب میں بیان کر دیا ہے۔ اور وہ یوں ہے کہ پہلے تشہد میں دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر دائیں پاؤں کو کھڑا رکھنا ہے اور بائیں پاؤں کو اندر کی طرف موڑنا ہے۔ آخری تشہد میں بایاں پاؤں دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکالیں اور اپنی بائیں جانب کے کولہے پر بیٹھ جائیں۔ اس ہیئت کو حدیث میں تورک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس ہیئت کو ترجمة الباب میں لانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس مسئلے میں مرد و زن کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

احادیث اور اقوالِ ائمہ کی روشنی میں خلاصہ

مندرجہ بالا تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز کی کیفیت و ادائیگی میں مرد و زن کی نماز میں کوئی فرق کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عام حکم دیا ہے کہ:
”جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو اس طرح تم نماز پڑھو۔“
پر عمل ہونا چاہیے۔ بعض علماء کی طرف سے جو فرق بیان کیا جاتا ہے وہ ضعیف روایات و آثار پر مبنی ہو سکتا ہے جو قابل اعتبار نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ رفع الیدین کی ہیئت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وأعلم أن هذه السنة نشترك فيها الرجال والنساء ولم يرد ما يدل على الفرق بين الرجل والمرأة فى مقدار الرافع وروى عن الحنفية أن الرجل يرفع إلى الأذنين والمرأة إلى المنكبين لأنه أستر لها ولا دليل على ذلك كما عرفت
”یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جو مرد و زن دونوں کے درمیان مشترک ہے (یعنی دونوں کے لیے یکساں ہے)۔ اس سلسلے میں دونوں کے درمیان فرق کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ مردوں کے لیے کانوں تک ہاتھ اٹھانے اور عورتوں کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کی کوئی صراحت منقول نہیں ہے، جیسا کہ حنفی مذہب میں کیا جاتا ہے۔ اس مسلک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔“
(نیل الاوطار، جلد: 2، صفحہ: 198)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:
لم يرد ما يدل على التفرقة فى الرفع بين الرجل والمرأة وعن الحنفية يرفع الرجل إلى الأذنين والمرأة إلى المنكبين لأنه أستر لها
”مرد ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت کندھوں تک اس لیے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ ستر پردہ ہے۔ مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ہے۔“
(فتح الباری، باب الاذان: 287/2)

نماز میں فرق کا دعویٰ: ایک برصغیر کا مسئلہ؟

مشاہدے میں آیا ہے کہ مرد و زن کی ادائیگی نماز میں یہ فرق صرف برصغیر پاک و ہند میں کر لیا گیا ہے۔ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے مرد کانوں تک ہاتھ اٹھا رہے ہیں تو خواتین کندھوں تک، خواتین سینے پر ہاتھ باندھ رہی ہیں تو مرد زیر ناف۔ مرد رکوع میں ایک ہیئت اختیار کر رہے ہیں تو خواتین کو دوسری ہیئت اختیار کرنے کا مکلف ٹھہرایا جا رہا ہے، خواتین کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ نہ کریں، نہ اپنے گھٹنے پکڑیں، محض اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھیں اور گھٹنوں کو خم دیں اور بازوؤں کو اپنے ساتھ ملا کر رکھیں۔ اسی طرح سجدہ میں خواتین کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا پیٹ رانوں سے چپکا کر رکھیں اور مردوں کو اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے، جب کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث بیان نہیں کی جاتی۔
ایمان، اعتقاد، عبادات اور اخلاقیات کی تمام تر تعلیمات میں مرد و زن یکساں طور پر مکلف اور مخاطب ہیں، الا یہ کہ شریعت ان میں سے کسی حکم کے ذریعے کسی ایک کو مستثنیٰ کر دے۔ جب تک کوئی استثنائی حکم کسی صحیح دلیل (قرآن و سنت) سے ثابت نہیں ہو گا، مرد و زن دونوں اصناف کے لیے ایک ہی حکم ہو گا۔ جیسے أقيموا الصلاة وآتوا الزكاة کے حکم میں مرد و زن دونوں شامل ہیں۔ نماز ایک عبادت ہے، اس کا حکم بھی مرد و زن دونوں کے لیے یکساں ہے، دونوں اس کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔ یہ دونوں نماز کس طرح ادا کریں گے؟ بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کیا ہے یا ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ادائیگی کے طریقے میں دونوں کے درمیان کوئی فرق کرنا جائز نہیں ہے۔

شریعت سازی صرف اللہ و رسول ﷺ کا حق ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ عورت کی جسمانی ساخت اور ستر پوشی کے لیے کون سی ہیئت زیادہ موزوں ہے اور کون سی نہیں۔ دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اس لیے شریعت سازی کا حق بھی صرف انہی کو حاصل ہے اور انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب ہم کلمہ شہادت میں کسی تیسرے کو شریک نہیں کرتے تو پھر شریعت سازی میں بھی کسی کو شامل نہ کریں۔ اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں اور سنت نبوی کے مطابق اس اہم فریضہ کو سر انجام دیں۔ تمام تر اہتمام کے باوجود صرف طریقہ ادائیگی درست نہ ہونے کی بنا پر ثواب سے محروم یا کم ثواب کے حقدار ٹھہرنا خسارے کی بات ہو گی۔

مرد و خواتین کی نماز: ائمہ کرام کی آراء

مرد و زن کی نماز کی ادائیگی کی ہیئت کے بارے میں بعض معروف ائمہ کرام کی رائے بھی ملاحظہ فرمائیں:
❀”تكبير كے ليے ہاتھ اٹهانے ميں مرد اور عورت كے درميان كوئي فرق نهيں.“
(ابن حجر، فتح الباری، 222/2)
❀ ”عورت بھی مرد کی طرح سینے پر ہاتھ رکھے گی۔“
(نووی، شرح مسلم)
❀ ام درداء رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ:
إنها كانت تجلس فى صلاتها جلست الرجل وكانت فقيهة
”وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ خاتون تھیں۔“
(التاريخ الصغير للبخاري: 90)
❀” عورت نماز میں مرد کی طرح ہی بیٹھے گی۔“
(ابراہیم نخعی، ابن ابی شیبہ، 270/1)
❀ ”مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔“
(ابن حزم، المحلی، 37/3)
❀ ”مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔“
(شمس الحق عظیم آبادی، عون المعبود: 263/1)
❀ ”مردوں اور عورتوں کی نماز کی تمام کیفیات میں کوئی فرق نہیں۔“
(صفة صلاة النبي، صفحہ: 189)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1