جہادِ اکبر کی حدیث: تحقیق اور اسناد کا تفصیلی جائزہ
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 208

سوال:

کیا ایسی کوئی صحیح حدیث موجود ہے جس میں قتال کو جہادِ اصغر اور خواہشات کے خلاف جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہو؟ براہِ مہربانی وضاحت کریں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث "قدمتم خیر مقدم و قدمتم من الجهاد الاصغر الی الجهاد الاکبر”
(تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئے ہو) کے بارے میں درج ذیل تفصیل محدثین کے اقوال کی روشنی میں پیش ہے:

پہلی سند کا جائزہ:

متنِ روایت:

یحییٰ بن العلاء نے کہا:
"حدثنا لیث عن عطاء بن ابی رباح عن جابر قال: قدم النبی صلی الله علیه وسلم من غزاة له فقال لهم……”
(ماخذ: تاریخ بغداد 13/523، 524 رقم: 3745۔ نیز الحافظ ابن الجوزی کی کتاب *ذم الھوی*، صفحہ 38، باب: مجاهدة النفس و محاسبتها و توبیخها)

سند میں راویوں کی حیثیت:

یحییٰ بن العلاء:
یہ راوی سخت مجروح ہے۔

امام نسائی نے کہا: "متروک الحدیث” (کتاب الضعفاء و المتروکین للنسائی: 627)

حافظ ابن حجر نے فرمایا: "رُمی بالوضع” (تقریب التہذیب 4/97، رقم: 7618)
یعنی محدثین نے اسے حدیث گھڑنے والا (وضاع) کہا ہے، لہٰذا اس کی روایت مردود ہے۔

لیث بن ابی سلیم (یحییٰ کے استاد):
جمہور محدثین کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔

حافظ ہیثمی کے مطابق: مدلس ہے (مجمع الزوائد 1/83، باب فی مثل المومن)

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: "صدوق اختلط اخیرا ولم یتمیز حدیثه فترك” (تقریب التہذیب: 5685)
یعنی وہ سچا ہے، لیکن عمر کے آخری حصے میں اختلاط کا شکار ہوا اور اس کے اختلاط شدہ اور غیر اختلاط شدہ احادیث میں فرق نہ ہوسکا، اس لیے اس کی روایت کو ترک کر دیا گیا۔

خلاصہ:

یہ روایت باطل ہے اور قابلِ قبول نہیں۔

تنبیہ:

تاریخ بغداد میں غلطی سے "یحیی بن ابی العلاء” چھپ گیا ہے، جب کہ درست نام "یحیی بن العلاء” ہے، جیسا کہ ابن الجوزی کی کتاب ذم الہوی میں مذکور ہے۔

دوسری سند کا جائزہ:

امام بیہقی کی روایت:

"اخبرنا علی بن احمد بن عبدان: انبا احمد بن عبید: ثنا تمتام: ثنا عیسی بن ابراهیم: ثنا یحیی بن یعلی عن لیث عن عطاء عن جابر قال: قدم علی رسول الله صلی الله علیه وسلم قوم غزاة، فقال صلی الله علیه وسلم: «قدمتم خیر مقدم، من جهاد الاصغر الی جهاد الاکبر» قیل: و ما جهاد الاکبر؟ قال: «مجاهدة العبد هواه»”
(ماخذ: کتاب الزہد الکبیر، صفحہ 165، حدیث: 373)

امام بیہقی کا تبصرہ:

"و هذا اسناد فیه ضعف”
یعنی: اس کی سند میں کمزوری ہے۔

اضافی حوالہ:

ابو بکر الشافعی نے بھی یہ روایت اپنی کتاب "الفوائد المنتقاۃ” (1/83، حدیث: 13) میں عیسی بن ابراہیم البر کی سند سے نقل کی ہے۔
(ماخذ: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، ج5، ص480، حدیث: 2460)

راویوں پر جرح:

تمتام اور عیسیٰ بن ابراہیم:
ان دونوں راویوں پر اگرچہ کچھ جرح کی گئی ہے، لیکن ان کی روایت حسن درجے سے نیچے نہیں گرتی۔

یحییٰ بن یعلی (ابو المحیاۃ الکوفی التیمی):
(تفصیل کے لیے دیکھیں: تہذیب الکمال للمزی، 20/263، اور وہاں ذکر ہے کہ اس کے شیوخ میں لیث بن ابی سلیم شامل ہے)

لیث بن ابی سلیم:
جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ راوی ضعیف و مدلس ہے، اس لیے اس سند کی بنیاد پر روایت ضعیف ہے۔

خلاصہ کلام:

جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف واپسی والی روایت ضعیف ہے،
لہٰذا قرآن اور صحیح احادیث کے مقابلے میں اس سے استدلال کرنا درست نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1