کیا شہید ستر (۷۰) رشتہ داروں کی سفارش کرے گا؟
سوال:
سنن ابی داود، کتاب الجہاد (حدیث: ۲۵۲۲) میں سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«یشفع الشهید فی سبعین من اهل بیته»
ترجمہ: "شہید اپنے گھر والوں (رشتہ داروں) میں سے ستر افراد کی شفاعت کرے گا۔”
کیا یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
یہ روایت سنن ابی داود میں درج ذیل سند کے ساتھ مذکور ہے:
’’حدثنا احمد بن صالح: حدثنا یحیی بن حسان، حدثنا الولید بن رباح الذماری: حدثنی عمی نمران بن عتبة الذماری قال: دخلنا علی ام الدرداء و نحن ایتام……‘‘
اس حدیث کو ابن حبان (الاحسان: ۴۶۴۱ یا ۴۶۶۰، الموارد: ۱۶۱۳)، بیہقی (السنن الکبریٰ ۹/۱۶۴)، اور ابن عساکر (تاریخ دمشق ۶۵/۱۶۸) نے یحییٰ بن حسان (التنیسی ابو زکریا البصری) کے واسطے سے روایت کیا ہے۔
رواۃ کی تفصیل:
◈ یحییٰ بن حسان:
یہ ثقہ راوی ہیں۔
(تقریب التہذیب: ۷۵۲۹)
◈ ولید بن رباح:
ان کا اصل نام رباح بن الولید بن یزید بن نمران الذماری ہے۔ یہ صدوق درجے کے راوی ہیں۔
(تقریب التہذیب: ۱۸۷۶)
◈ نمران بن عتبہ:
ان سے صرف ولید بن رباح یا رباح بن ولید نے روایت بیان کی ہے۔
ابن حبان نے انہیں اپنی کتاب "الثقات” میں ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے:
روی عنہ حریز بن عثمان
یعنی ان سے حریز بن عثمان نے روایت کی ہے۔
(الثقات ۷/۵۴۴)
لیکن نہ تو نمران بن عتبہ سے حریز بن عثمان کی کوئی روایت معروف ہے، اور نہ ہی ابوداود کی طرف منسوب یہ قول ثابت ہے کہ:
شیوخ حریز کلهم ثقات
یعنی حریز کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں۔
یہ قول لسان المیزان (۲/۳۶۰، ۳۶۱؛ دوسرا نسخہ ۲/۶۸۰) میں آجری کے حوالے سے منقول ہے، جبکہ ابو عبید الآجری خود مجہول الحال اور غیر موثق راوی ہیں۔
نمران بن عتبہ کے بارے میں اقوال:
◈ حافظ ذہبی نے کہا:
لا یدری من هو؟
یعنی "پتا نہیں وہ کون ہے؟”
(میزان الاعتدال ۴/۲۷۳)
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا:
مقبول
یعنی وہ مجہول الحال راوی ہیں۔
(تقریب التہذیب: ۷۱۸۸)
نتیجہ:
یہ روایت نمران بن عتبہ کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تاہم، اس مفہوم کی ایک حسن لذاتہ شاہد موجود ہے جو اس کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔
تقویتی شاہد:
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"(شہید) اپنے رشتہ داروں میں سے ستر انسانوں کی شفاعت کرے گا۔”
(سنن ابن ماجہ: ۲۷۹۹)
◈ اس حدیث کی سند حسن ہے۔
◈ امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(ترمذی: ۱۶۶۳)
لہٰذا، ابن ماجہ والی روایت "حسن لذاتہ” ہے، اور اس کے ساتھ ابوداود کی روایت کو "حسن لغیرہ” کہا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب