موزوں پر مسح کی مدت اور آغاز کا شرعی وقت
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

موزوں پر مسح کا وقت – مکمل وضاحت

سوال:

موزوں پر مسح کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ موضوع ان اہم فقہی مسائل میں شامل ہے جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، اس لیے ہم اس سوال کا جواب تفصیل سے پیش کریں گے، ان شاء اللہ۔

موزوں پر مسح: کتاب و سنت سے دلائل

قرآن مجید سے دلیل:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ﴾ (سورہ المائدة، آیت 6)
"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو، سر کا مسح کرو، اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔”

  • اگر "أَرْجُلَكُمْ” کو لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ "بِرُءُوْسِكُمْ” پر عطف ہوگا، یعنی پاؤں پر مسح کیا جائے گا۔
  • اگر اسے فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا عطف "وُجُوْهَكُمْ” پر ہوگا، یعنی پاؤں دھوئے جائیں گے۔

سنت سے وضاحت:

  • ننگے پاؤں ہوں تو دھونا واجب ہے۔
  • موزے پہنے ہوں تو مسح جائز ہے۔

موزوں پر مسح: احادیث سے ثبوت

موزوں پر مسح نبی کریم ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اہلِ علم نے ان روایات کو متواتر شمار کیا ہے، جیسا کہ ایک نظم میں کہا گیا:

مِمَّا تَوْاتَرَ حَدِيْثُ مَنْ كَذَبْ وَمَنْ بَنٰی لِلّٰهِ وَاحْتَسَبْ
وَرُوْيَةٍ، شَفَاعَةٍ وَالْحَوْضِ وَمَسْحِ خُفَّيْنِ وَهٰذِی بَعْضُ
’’متواتر احادیث میں سے وہ ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی، وہ اپنا ٹھکانا جہنم سمجھے اور وہ حدیث جس میں ہے کہ جس نے حصول ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کا گھر بنایا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا، نیز روئیت باری تعالیٰ، شفاعت، حوض کوثر اور موزوں پر مسح کرنے کی احادیث بھی متواتر ہیں اور یہ چند متواتر احادیث ہیں، جنہیں بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔‘‘

ان متواتر احادیث میں موزوں پر مسح بھی شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ کا عمل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے:

«دَعْهُمَا فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ»
(صحیح البخاری: کتاب الوضوء، باب اذا ادخل رجليه وهما طاهرتان، حدیث: 206)
(صحیح مسلم: کتاب الطهارة، باب المسح علی الخفین، حدیث: 274، 79)

یعنی: "انہیں چھوڑ دو، میں نے انہیں پاک حالت میں پہنا ہے۔”

موزوں پر مسح کے لیے شرائط

  1. کامل طہارت کی حالت میں پہنا گیا ہو
    یعنی حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہونا ضروری ہے۔
  2. مسح مدت کے اندر کیا جائے
    اس کی وضاحت آگے آئے گی۔
  3. وضو کی حالت میں مسح کیا جائے
    جنابت کی حالت میں مسح نہیں کیا جا سکتا۔

حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهُنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ»
(سنن النسائی: کتاب الطهارة، باب التوقيت فی المسح، حدیث: 126، 127)
(جامع الترمذی: کتاب الطهارة، باب المسح علی الخفین للمسافر والمقیم، حدیث: 96)

مسح کی مدت

  • مقیم کے لیے: ایک دن ایک رات (24 گھنٹے)
  • مسافر کے لیے: تین دن تین راتیں (72 گھنٹے)

یہ مدت نمازوں کی تعداد سے متعلق نہیں، بلکہ وقت سے متعلق ہے۔

مسح کی مدت کا آغاز کب ہوتا ہے؟

مدت کا آغاز پہلی بار مسح کرنے کے وقت سے ہوگا:

  • موزے پہننے کے وقت سے نہیں۔
  • وضو ٹوٹنے کے وقت سے بھی نہیں۔

دلیل:

شریعت میں مسح کا ذکر ہے اور اس کا وجود عملی مسح سے ہی ہوتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ مقیم ایک دن ایک رات اور مسافر تین دن تین رات مسح کرے۔

مثال:

  1. فجر کے وقت وضو کیا اور موزے پہنے۔
  2. وضو ظہر تک قائم رہا۔
  3. عصر کے بعد (پانچ بجے) مغرب کے لیے وضو کیا اور مسح کیا۔
  4. اب اگلے دن پانچ بجے تک مسح کر سکتا ہے۔

اگر اگلے دن پونے پانچ بجے وضو کر کے مسح کیا، تو وہ مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔

اس سے ثابت ہوا:

  • مسح کی مدت کا تعلق نمازوں کی تعداد سے نہیں۔
  • مدت ختم ہونے کے بعد مسح باطل ہو جائے گا۔
  • لیکن اگر مدت کے اندر مسح کیا گیا ہو اور وضو برقرار ہو تو طہارت باقی رہے گی، جب تک وضو نہ ٹوٹے۔

مسافر کے لیے مزید وضاحت

اگر کوئی شخص مقیم کی حیثیت سے موزے پہنے اور پھر سفر شروع کرے، تو سفر کے دوران مسح کرے تو:

  • وہ مسافر کی مدت یعنی تین دن تین رات کے مطابق مسح کر سکتا ہے۔

یہی صحیح قول ہے، نہ کہ یہ کہ مدت کا آغاز موزے پہننے کے بعد بے وضو ہونے سے ہوتا ہے۔

موزہ اتارنے کے اثرات

موزے اتار دینے سے:

  • مسح باطل ہو جاتا ہے
  • طہارت برقرار رہتی ہے

دلیل:

حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰهِ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا»
(سنن النسائی: کتاب الطهارة، باب التوقيت فی المسح، حدیث: 126، 127)
(جامع الترمذی: کتاب الطهارة، باب المسح علی الخفین، حدیث: 96)

یعنی: "رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم موزے نہ اتاریں۔”

  • اگر مسح کے بعد موزے اتار دیے جائیں، تو اب دوبارہ نئے وضو کے ساتھ پاؤں دھونا لازم ہوگا۔
  • لیکن پچھلی طہارت باقی رہے گی، جب تک وہ کسی شرعی سبب سے نہ ٹوٹے۔

خلاصہ

  • مسح کی اجازت پہلی بار مسح کرنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے۔
  • موزہ اتارنے سے مسح ختم ہو جاتا ہے، لیکن طہارت ختم نہیں ہوتی۔
  • وضو برقرار رہے گا جب تک شریعت میں کوئی سبب وضو ٹوٹنے کا نہ پایا جائے۔

هٰذَا مَا عِنْدِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1