عورتوں کے ختنے کا حکم: کیا مردوں کی طرح عورتوں پر بھی ختنہ واجب ہے؟
سوال:
کیا عورتوں پر بھی ختنہ مردوں کی طرح واجب ہے؟ ختنہ کا شرعی حکم مردوں اور عورتوں کے لیے کیا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ختنے کے شرعی حکم میں اختلاف موجود ہے۔ تاہم سب سے درست رائے یہ ہے کہ:
✿ مردوں کے لیے ختنہ واجب ہے۔
✿ عورتوں کے لیے ختنہ سنت ہے۔
یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ مردوں کے ختنہ کے اندر ایک ایسی اہم مصلحت ہے جو نماز کی شرط یعنی طہارت سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر قلفہ باقی رہے تو پیشاب کے قطرے اس میں باقی رہ جاتے ہیں جو:
✿ جلن یا سوزش کا سبب بنتے ہیں۔
✿ حرکت کے دوران پیشاب کے خارج ہونے کی وجہ سے نجاست پیدا کرتے ہیں۔
جبکہ عورتوں کے ختنہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ:
✿ یہ شہوت میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
لہٰذا، عورتوں کے لیے ختنہ کمال حاصل کرنے کی چیز ہے، ایسی لازم چیز نہیں جس کے نہ کرنے سے نقصان ہو۔
ختنہ کے وجوب کی شرط:
علماء کرام نے وجوب ختنہ کے لیے ایک شرط بیان کی ہے کہ:
✿ اگر ختنہ سے ہلاکت یا بیماری کا خدشہ ہو، تو پھر ختنہ واجب نہیں رہتا۔
✿ کیونکہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی بھی واجب عمل ایسی صورت میں واجب نہیں رہتا جب اس سے ضرر یا ہلاکت کا اندیشہ ہو۔
مردوں کے ختنہ کے وجوب کے دلائل:
مندرجہ ذیل دلائل مردوں کے لیے ختنہ کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں:
✿ احادیث میں واضح حکم:
متعدد احادیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں کو ختنہ کا حکم دیا۔
اصول کے مطابق: امر (حکم) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
[1] مسند الامام احمد: ۳/ ۴۱۵۔
✿ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فرق:
ختنہ ایک امتیازی نشان ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
❀ معرکوں میں شہداء کو ختنہ کی بنیاد پر پہچانا جاتا تھا۔
❀ چونکہ یہ ایک امتیازی علامت ہے، اس لیے کافروں سے امتیاز کے وجوب کے پیشِ نظر ختنہ واجب ہے۔
اسی وجہ سے کفار کے ساتھ مشابہت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ))
’’جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
(سنن ابي داؤد، اللباس، باب فی لبس الشہرة، ح: ۴۰۳۱)
✿ بدن کے حصے کو کاٹنے کی حرمت:
ختنہ بدن کے کچھ حصے کو کاٹنے کا عمل ہے، اور عام اصول کے مطابق بدن کے کسی حصے کو کاٹنا حرام ہے۔
❀ لیکن جب کسی واجب عمل کے لیے بدن کے حصے کو کاٹا جائے تو وہ جائز ہو جاتا ہے۔
❀ لہٰذا، یہ دلیل ختنہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔
✿ یتیم بچوں کے ختنہ کا معاملہ:
اگر کوئی بچہ یتیم ہو تو اس کے ختنہ کا انتظام اس کا وارث کرتا ہے۔
❀ ختنہ کرنے والے کو اجرت دی جاتی ہے، جو یتیم کے مال میں تصرف ہے۔
❀ اگر ختنہ واجب نہ ہوتا تو وارث کا یہ تصرف بدن اور مال دونوں پر زیادتی شمار ہوتا اور شرعاً ناجائز ہوتا۔
مندرجہ بالا نقلی اور عقلی دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مردوں کے لیے ختنہ واجب ہے۔
عورتوں کے ختنہ کے بارے میں اقوال:
✿ اس بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔
✿ صحیح ترین رائے یہ ہے کہ:
"ختنہ صرف مردوں کے لیے واجب ہے، عورتوں کے لیے نہیں۔”
✿ عورتوں کے ختنہ کے بارے میں ایک ضعیف حدیث منقول ہے:
((اَلْخِتَانُ سُنَّۃ فی حقٌ الرِّجَالِ،و مَکْرُمَة فی حقٌ لِلنِّسَائِ))
’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے حق میں اعزاز و اکرام ہے۔‘‘
(مسند احمد: ۷۵/۵)
✿ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس مسئلہ پر فیصلہ کن دلیل بن جاتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب