سوال
قضائے حاجت کے دوران قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا کیسا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں اہل علم کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ ان تفصیلات کو درج ذیل انداز میں بیان کیا جا رہا ہے:
پہلا موقف: کھلی جگہ میں قبلہ رخ ہونا حرام ہے
بعض اہل علم کے مطابق:
- اگر کوئی کھلی جگہ میں ہو (یعنی بغیر کسی دیوار یا عمارت کے)، تو قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا حرام ہے۔
- اس رائے کے لیے دلیل حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی روایت سے لی جاتی ہے:
"لا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَة بغائط ولابولَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوہَا وَلَکِنْ شَرِّقُوا أَوْغَرِّبُوا”
(صحیح البخاري: الوضوء، باب لا تسقبل القبلة ببول ولا غائط… ح: 144؛ صحیح مسلم، الطہارۃ، باب الاستطابة، ح: 264 واللفظ له)
یعنی: "جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو بول وبراز کے وقت قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرو۔”
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
"جب ہم شام گئے تو دیکھا کہ بیت الخلاء قبلہ رخ بنائے گئے تھے، تو ہم ان سے باہر نکل کر اللہ سے استغفار کرتے تھے۔”
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ:
- کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا ناجائز ہے۔
- البتہ عمارت کے اندر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا۔
دوسرا موقف: عمارت میں قبلہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے
اس رائے کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت پر ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
"رقَیْت يوماً علی بیت حفصة فرأیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقْضِي حَاجَتَهُ مستقبِلَ الشّامِ مستدبر الکعبة”
(صحیح البخاري، فرض الخمس، باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 3102)
یعنی: "میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلا میں قبلہ کی طرف پشت کر کے اور شام کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کر رہے تھے۔”
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ:
- عمارت کے اندر قبلہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے۔
- لیکن منہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے مطلق ممانعت ہے، یعنی اس بارے میں کوئی استثنا موجود نہیں۔
تیسرا موقف: ہر حال میں قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا ممنوع ہے
بعض علماء کے نزدیک:
- چاہے عمارت ہو یا کھلی جگہ، ہر صورت میں قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا ناجائز ہے۔
- ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے جوابات:
حدیث ابن عمر کو اس وقت پر محمول کیا جائے گا جب ممانعت والی حدیث نازل نہیں ہوئی تھی۔
ممانعت والی حدیث کو راجح سمجھا جائے گا کیونکہ یہ اصل (یعنی جواز) کو منسوخ کر رہی ہے۔
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث ایک قولی روایت ہے جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت فعلی ہے۔
قول کو فعل پر فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ فعل میں احتمال ہوتا ہے جیسے:
مخصوص حالات
نسیان
یا دیگر احتمالات
راجح قول (زیادہ مضبوط رائے)
مصنف کے نزدیک صحیح موقف یہ ہے کہ:
کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا حرام ہے۔
عمارت کے اندر:
قبلہ کی طرف پشت کرنا جائز ہے۔
منہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کی ممانعت مطلق ہے۔
اضافی نکات:
منہ کرنا، پشت کرنے کی نسبت زیادہ سخت ممانعت والا عمل ہے۔
اسی لیے پشت کرنے میں تخفیف (رعایت) دی گئی ہے لیکن افضل یہی ہے کہ حتی الامکان قبلہ کی طرف پشت بھی نہ کی جائے۔
جغرافیائی وضاحت:
"مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا یہ حکم مدینہ، شام، اور یمن جیسے مقامات کے لیے ہے جو مکہ مکرمہ کے شمال یا جنوب میں واقع ہیں۔
لیکن پاکستان، بھارت، چین، شمالی افریقہ، اور امریکہ جیسے وہ مقامات جو مکہ مکرمہ کے مشرق یا مغرب میں ہیں، وہاں قبلہ کا رخ مشرق یا مغرب میں ہونے کی وجہ سے قضائے حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنا بھی ممنوع ہوگا۔”
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب