مردوں کے لیے سونا حرام ہونے کی حکمت
سوال:
مردوں کے لیے سونا پہننا کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟ اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو بھی شخص یہ سوال کرے یا اس جواب کو پڑھے، اسے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہر مومن کے لیے شریعت کے احکام کی بنیاد یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم﴾ (سورۃ الأحزاب، آیت 36)
"اور کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ اختیار رکھیں۔”
لہٰذا، اگر کسی چیز کے وجوب یا حرمت کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے تو اس کی علت یہی کافی ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، اور یہ بات ہر مومن کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا گیا کہ حائضہ عورت روزے کی قضا کیوں کرتی ہے لیکن نماز کی قضا کیوں نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
«كان يصيبنا ذلک فنومر بقضاء الصوم ولا نومر بقضاء الصلاة»
(صحیح البخاری، الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ، حدیث: 321، و صحیح مسلم، الحیض، باب وجوب قضاء الصوم، حدیث: 335 (69)، واللفظ له)
"ہمیں جب یہ حالت پیش آتی تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔”
شریعت کے احکام میں حکمت تلاش کرنے کا فائدہ
اگرچہ کسی شرعی حکم کے پیچھے اصل بنیاد نصِ شرعی ہے، لیکن اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام میں حکمت تلاش کرے۔ اس کے درج ذیل فوائد ہیں:
❀ دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
❀ شریعت کی عظمت اور برتری واضح ہوتی ہے۔
❀ جب کسی حکم کی علت معلوم ہو جائے، تو غیر منصوص امور پر قیاس کرنا آسان ہوتا ہے۔
مردوں کے لیے سونا حرام ہونے کی دلیل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے مردوں کے لیے سونے کے استعمال کو حرام قرار دیا، جبکہ عورتوں کے لیے اس کا استعمال جائز رکھا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ:
❀ سونا ایک قیمتی اور مہنگی چیز ہے جو زینت اور آرائش کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
❀ زینت مرد کے لیے مقصود نہیں، کیونکہ مرد اپنی فطری رجولیت کی وجہ سے فی نفسہٖ کامل ہے اور اسے خود کو کسی کے لیے مزین کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
❀ عورت فطری طور پر ناقص ہے اور اسے حسن و جمال کی تکمیل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ شوہر کے لیے خوشنما بن سکے۔ اسی لیے اس کے لیے سونے کا زیور استعمال کرنا جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عورت کے متعلق فرمایا:
﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ مُبينٍ﴾ (سورۃ الزخرف، آیت 18)
"کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات واضح نہ کر سکے (اللہ کی بیٹی ہو سکتی ہے؟)”
یہ آیت اس بات کی مزید وضاحت کرتی ہے کہ زیور عورت کے لیے موزوں ہے، نہ کہ مرد کے لیے۔
سونا پہننے والے مردوں کے لیے تنبیہ
جو مرد سونے کے زیور استعمال کرتے ہیں، انہوں نے دراصل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے آپ کو عورتوں کی صف میں شامل کر لیا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں جو زیور ہیں وہ زیور نہیں بلکہ جہنم کی آگ کا انگارہ ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اس لیے ایسے مردوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں۔
متبادل جائز زیورات
اگر کوئی مرد زیور پہننا ہی چاہتا ہے تو وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے درج ذیل متبادل اختیار کر سکتا ہے:
❀ چاندی کا زیور: مرد چاندی کی انگوٹھی یا دیگر زیورات استعمال کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس میں اسراف نہ ہو۔
❀ دیگر دھاتوں سے بنی انگوٹھیاں: سونے کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنی انگوٹھیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ فضول خرچی نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب