رضاعت کی مدت اور اس کے عدد سے متعلق تفصیلی شرعی وضاحت
مسئلہ: رضاعت کی مدت اور دودھ پلانے کی تعداد
بعض علماء کا موقف ہے کہ اگر بچہ دو سال کی عمر کے اندر صرف ایک مرتبہ بھی دودھ پی لے تو رضاعت (حرمتِ رضاعت) ثابت ہو جاتی ہے۔ ان کا استدلال درج ذیل روایات سے ہے:
علماء کے دلائل اور متعلقہ روایات
1. عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول
> عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو برس کی عمر میں بچہ اگر ایک دفعہ بھی دودھ پی لے تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔
(موطا امام مالک 607/7 بترقیم فؤاد عبدالباقی، ’’عن ثور بن زید الدیلی عن ابن عباس به‘‘)
- اس روایت کی سند میں ثور بن زید کی ابن عباس سے روایت منقطع ہے، یعنی سند میں ایک واسطہ چھوٹا ہوا ہے۔
- تاہم، السنن الکبریٰ للبیہقی (جلد 7، صفحہ 462) میں یہ روایت عبدالعزیز بن محمد (الدراوردی) عن ثور بن زید عن عکرمہ عن ابن عباس کے طریق سے متصل سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔
- امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ھذا ھو الصحیح موقوف”
یعنی سند کے لحاظ سے یہ موقوف روایت صحیح ہے۔
2. سعید بن المسیب اور عروہ بن زبیر رحمہما اللہ کے اقوال
> ابراہیم بن عقبہ نے سعید بن المسیب سے رضاعت کا حکم پوچھا، تو سعید رحمہ اللہ نے کہا: جو رضاعت دو برس کے اندر ہو، اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے، چاہے ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ ابراہیم نے کہا، پھر میں نے عروہ بن زبیر سے پوچھا، انھوں نے بھی ایسا ہی کہا۔
(موطا، جلد 2، صفحہ 604)
دونوں اقوال صحیح الاسناد ہیں۔
3. امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ کا قول
> ابن شہاب کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ، حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔
یہ قول بھی صحیح اور ثابت ہے، جیسا کہ موطا امام مالک میں مذکور ہے۔
پانچ بار دودھ پلانے کے قائلین کا موقف
وہ علماء جو کہتے ہیں کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پلانا شرط ہے، ان کا استدلال درج ذیل حدیث سے ہے:
1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
> اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پہلے قرآن میں دس بار دودھ پلانے کا ذکر تھا، پھر یہ منسوخ ہو کر پانچ بار رہ گیا، اور کم از کم پانچ بار دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں دس رضعات والی کوئی آیت اب موجود نہیں، کیونکہ وہ منسوخ التلاوۃ ہو چکی ہے، یعنی تلاوت کے اعتبار سے منسوخ ہو گئی ہے۔
رضاعت کبیر (بالغ شخص کو دودھ پلانا)
1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحقیق
> سہلہ بنت سہیل، جو ابو حذیفہ کی بیوی تھیں، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ ہم سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے، وہ ہمارے گھر آتا ہے، اب کیا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو پانچ بار دودھ پلا دے، وہ تیرا محرم ہو جائے گا۔
(موطا امام مالک)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحقیق کے مطابق رضاعت کبیر جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ پانچ بار دودھ پلایا جائے۔
2. دیگر ازواج مطہرات کا موقف
- حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر تمام ازواج النبی ﷺ اور جمہور امت کے نزدیک رضاعت کبیر جائز نہیں۔
- وہ اس حدیث کو سالم کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہیں، یعنی یہ حکم سالم کے لئے خاص تھا، عام نہیں۔
3. صحیح مسلم کی روایت
> دیکھئے: صحیح مسلم (جلد 1، صفحہ 469، حدیث 1454)
خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف
> موطا امام مالک (جلد 2، صفحہ 606) پر ایک صحیح السند روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رضاعت کبیر کے قائل نہیں تھے۔
یہی موقف جمہور علماء کا بھی ہے اور یہی راجح (زیادہ قوی) قول ہے۔
نتیجہ
- رضاعت کی حرمت دو برس کے اندر ایک دفعہ دودھ پینے سے بھی ثابت ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس، سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر اور ابن شہاب الزہری کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے۔
- بعض علماء کے نزدیک کم از کم پانچ بار دودھ پلانا شرط ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تحقیق ہے۔
- رضاعت کبیر کے مسئلے میں سالم والی حدیث بعض کے نزدیک خاص ہے، جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے عموم کی قائل تھیں۔
- جمہور علماء اور خلفائے راشدین خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک رضاعت کبیر جائز نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب