غیر مسلموں کو جزیرۃ العرب میں بلانا: شرعی ہدایات اور احکام
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

غیر مسلموں کو جزیرۃ العرب میں بلانے کے متعلق شرعی حکم

سوال:

غیر مسلموں کو جزیرۃ العرب میں بلانا کیسا ہے؟ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر مسلموں کو جزیرۃ العرب میں بلانے کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس سے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے:

رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایات:

➊ صحیح بخاری کی روایت:

رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے دوران ارشاد فرمایا:

«اَخْرِجُوا الْمُشْرِکِيْنَ مِنْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ»
(صحیح البخاري، الجهاد والسير، باب هل يستشفع الی اهل الذمة؟… ح:۳۰۵۳)
"مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔”

➋ صحیح مسلم کی روایت:

اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:

«لَاُخْرِجَنَّ الْيَهُوْدَ وَالنَّصَارٰی مِنْ جَزِيْرَةِ الْعَرْبِ حَتّٰی لَا اَدَعَ اِلَّا مُسْلِمًا»
(صحیح مسلم، الجهاد والسير، باب اخراج اليهود والنصاری من جزيرة العرب، ح: ۱۷۶۷)
"میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے ضرور نکال دوں گا حتیٰ کہ یہاں کوئی غیر مسلم باقی نہ رہے۔”

موجودہ دور میں غیر مسلموں کو بلانے کی شرائط:

◈ اگر کوئی دینی یا دنیاوی ضرورت ہو اور اس کو پورا کرنے کے لیے کوئی مسلمان موجود نہ ہو، تو ایسی مجبوری کی حالت میں غیر مسلم کو بلایا جا سکتا ہے۔
◈ تاہم یہ بھی شرط ہے کہ انہیں مطلق اقامہ (مستقل رہائش) نہ دیا جائے۔

دینی مفاسد کی صورت میں بلانا حرام:

اگر غیر مسلموں کو بلانے کی وجہ سے عقیدہ یا اخلاقی طور پر دینی مفاسد پیدا ہوں، تو پھر انہیں بلانا حرام ہو گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فی نفسہ جائز عمل اگر کسی فساد یا خرابی کا سبب بنے تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔ یہ ایک معروف اصول ہے۔

ممکنہ دینی نقصانات:

کفر سے محبت یا رضا مندی کا پیدا ہونا۔
ان کے ساتھ میل جول کی صورت میں دینی غیرت کا خاتمہ۔
دینی اقدار میں کمزوری اور عقیدے کی خرابی کا اندیشہ۔

مسلمانوں کی موجودگی ہی سراپا خیر:

◈ مسلمانوں کا وجود ہی باعثِ خیر و برکت ہے، الحمدللہ۔
◈ ہمیں چاہیے کہ ہم مسلمانوں ہی کو دعوت دیں اور انہی کو ترجیح دیں کیونکہ اسی میں خیر و بھلائی ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور توفیق کی دعا کرتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1