ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام
کفار کی اشیاء سے استفادہ: شرعی رہنمائی
سوال
کفار کے پاس موجود اشیاء سے، کسی ممنوع کام میں ملوث ہوئے بغیر، استفادہ کیسے ممکن ہے؟ کیا اس مسئلے میں "مصالح مرسلہ” کا بھی دخل ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ کے دشمن اور ہمارے دشمن یعنی کفار جو کچھ انجام دیتے ہیں، اسے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
➊ عبادات
- عبادات میں کفار کی مشابہت اختیار کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے قطعی طور پر ناجائز ہے۔
- جو شخص عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کرے، وہ ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے، جو اسے اسلام سے نکال کر کفر تک پہنچا سکتا ہے۔
➋ عادات (مثلاً لباس وغیرہ) کا معاملہ
- عادات میں بھی ان کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»
(سنن ابی داؤد، اللباس، باب ماجاء فی لبس الشهرة، حدیث: 4031)
’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
➌ صنعت و حرفت اور مفید کاموں میں استفادہ
- جہاں تک ایسی صنعت و حرفت کا تعلق ہے جن میں مصالح عامہ (عوامی مفاد) ہو، تو ان سے سیکھنے اور فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
- ایسا عمل مشابہت کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ یہ نفع بخش کاموں میں شرکت شمار ہوتا ہے۔
- اس طرح کے افعال میں شامل ہونے والا شخص ان کی مشابہت اختیار کرنے والا نہیں کہلائے گا۔
➍ مصالح مرسلہ کے متعلق سوال کا جواب
سائل کے سوال کے اس حصے کے بارے میں کہ:
"کیا اس میں مصالح مرسلہ کا بھی دخل ہے؟”
- مصالح مرسلہ کو مستقل دلیل کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔
- اگر کوئی بات ایسی ہو کہ اس کا مصلحت ہونا ثابت ہو جائے اور شریعت اس کی صحت اور قبولیت کی گواہی دے، تو وہ مصلحت شریعت ہی کا حصہ سمجھی جائے گی۔
- اگر شریعت اس کے باطل ہونے کی گواہی دے، تو وہ مصالح مرسلہ نہیں ہوگی، خواہ عمل کرنے والا اس کو مصلحت ہی کیوں نہ سمجھے۔
- اگر وہ نہ تو شریعت سے موافق ہو اور نہ مخالف، تو پھر یہ بات اس کے اصل حکم کی طرف لوٹے گی:
- اگر وہ عبادت سے متعلق ہو تو عبادات میں اصل حکم حرمت ہے۔
- اگر وہ غیر عبادات سے متعلق ہو تو غیر عبادات میں اصل حکم حلت ہے۔
خلاصہ
- "مصالح مرسلہ” کوئی مستقل دلیل نہیں ہوا کرتی، بلکہ اس کی حیثیت شریعت کی تائید یا مخالفت سے مشروط ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب