قیامت کے دن لوگوں کو کس نام سے پکارا جائے گا؟
سوال:
کیا قیامت کے دن لوگوں کو اُن کی ماؤں کے ناموں سے پکارا جائے گا؟ اس بارے میں تحقیق کے ساتھ وضاحت مطلوب ہے۔ جزاکم اللہ خیراً۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایات کی تفصیل:
روایت: ماؤں کے نام سے پکارا جانا
المعجم الکبیر للطبرانی میں یہ روایت منقول ہے کہ:
«إن اللہ تعالی یدعوا الناس یوم القیامة بأمهاتهم ستراً منه علی عباده»
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اُن کی ماؤں کے نام سے پکارے گا تاکہ وہ اپنے بندوں کی پردہ پوشی کرے۔
(اللآلی المصنوعۃ للسیوطی ۲/۴۴۹ نقلًا عن الطبرانی)
یہی روایت دیگر کتب میں بھی آئی ہے:
- المعجم الکبیر (11/122، حدیث: 11242)
- تفسیر ابن کثیر (8/43، دوسرا نسخہ 4/331، بحوالہ طبرانی)
- مجمع الزوائد (10/539، بحوالہ طبرانی)
بعض نسخوں میں "بأسمائهم” یعنی لوگوں کو ان کے ناموں سے پکارنے کا لفظ بھی آیا ہے۔ "بأسمائهم” ہو یا "بأمهاتهم” دونوں روایتیں ایک ہی راوی کے ذریعہ منقول ہیں۔
راوی کا درجہ اور روایت کا حکم:
ان تمام روایتوں کا راوی ابوحذیفہ اسحاق بن بشر ہے جو کہ متروک راوی ہے:
- مجمع الزوائد (10/359)
- میزان الاعتدال (1/184-186)
- لسان المیزان (1/354-355)
محدثین کی آراء:
- امام دارقطنی: "کذاب متروک” (کتاب الضعفاء والمتروکین: 92)
- حافظ ابن حبان: "کان یضع الحدیث علی الثقات” (المجروحین 1/135)
اگرچہ محمد بن عمر الدرا بحجردی النیسابوری نے اسحاق بن بشر کو ثقہ کہا ہے (تاریخ دمشق لابن عساکر 8/131)، لیکن محمد بن عمر خود مجہول الحال ہے، لہٰذا اس کی توثیق محدثین کی شدید جرح کے مقابلے میں مردود ہے۔
حافظ ذہبی نے بھی اس توثیق کو ناقابل التفات یعنی مردود قرار دیا ہے (میزان الاعتدال 1/185)
ایک اور روایت: ابن عدی کے حوالہ سے
سیوطی نے ایک اور روایت ابن عدی کے حوالہ سے لکھی ہے:
«یدعی الناس یوم القیامة بأمهاتهم ستراً من الله علیهم»
ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں کو اُن کی ماؤں (کے ناموں) سے پکارا جائے گا، اللہ ان پر پردہ ڈالے گا۔
(اللآلی المصنوعۃ ۲/۴۴۹، الکامل لابن عدی ۱/۳۳۶، دوسرا نسخہ ۱/۵۵۸)
لیکن اس روایت کا راوی اسحاق بن ابراہیم الطبری ہے، جو کہ منکر الحدیث ہے:
- الکامل لابن عدی (1/558)
- الضعفاء والمتروکین للدارقطنی (ص 98)
محدثین کی آراء:
- ابن حبان: "منکر الحدیث جداً، یأتي علی الثقات الأشیاء الموضوعات، لایحل کتابة حدیثہ إلا علی جهة التعجب” (المجروحین 1/138)
- حاکم نیشاپوری: "روی عن مالک و ابن عیینة و الفضیل بن عیاض و عبدالله بن الولید العدني أحادیث موضوعة” (المدخل الی الصحیح ص119)
لہٰذا یہ روایت بھی موضوع قرار پاتی ہے۔
صحیح روایت:
صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ہے:
«إن الغادر یرفع له لواء یوم القیامة، یقال: هذه غدرة فلان بن فلان»
ترجمہ: قیامت کے دن غداری کرنے والے کے لیے جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایدعی الناس بآبائھم، حدیث: 6177)
یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا۔
نتیجہ:
- ❌ ماؤں کے نام سے پکارنے والی تمام روایتیں ضعیف یا موضوع ہیں۔
- ✅ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق لوگوں کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا۔
- ➤ لہٰذا قیامت کے دن پکارے جانے کا طریقہ باپ کے نام کے ساتھ ہی ثابت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب