عید میلاد اور بدعت حسنہ کی حدیث کا درست مفہوم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

بدعت کی وضاحت اور عید میلاد کے بارے میں شرعی حکم

سوال:

بدعت کی وضاحت کریں اور بتائیں کہ عید میلاد النبیﷺ منانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

بعض لوگ اس حدیث:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً»
(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح: ۱۰۱۷)
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا‘‘

سے استدلال کرتے ہیں کہ نئی دینی رسومات (جیسے عید میلاد) اختیار کرنا درست ہے۔ ان اہلِ بدعت کی تردید کیسے کی جائے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ اَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا»
(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اسے اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا اجر و ثواب بھی ملے گا۔‘‘

لیکن اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

«عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْن من بعدی،َ وَاِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
(سنن ابی داؤد، السنة، باب فی لزوم السنة، ح: ۴۶۰۷ وسنن ابن ماجہ، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدین المهدیین، ح:۴۳)
’’تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو… اور نئے نئے امور (نئی چیزوں) سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

حدیث ’’سنتِ حسنہ‘‘ کا سیاق و سباق:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً»
(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا۔‘‘

کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے۔ واقعہ کچھ یوں تھا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ مُضَر کے کچھ لوگ آئے جو نہایت نادار اور فاقہ کشی کی حالت میں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ان کی مدد کی ترغیب دی۔ اس موقع پر ایک صحابی نے چاندی کی تھیلی لا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ اَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا الی يوم القيامةُ»
(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اسے اس کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا قیامت تک اجر و ثواب ملتا رہے گا۔‘‘

’’سنتِ حسنہ‘‘ کا مفہوم:

جب ہم اس حدیث کا سیاق و سباق اور مفہوم جان لیتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ:

"اچھا طریقہ شروع کرنے” سے مراد کسی شرعی سنت پر عمل کی ابتداء ہے، نئی عبادت یا نیا دین ایجاد کرنا نہیں۔
◈ شریعت میں کسی بھی عمل کا حکم صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی دے سکتے ہیں۔
◈ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو سنت پر عمل شروع کرتے ہیں اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔

لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے:

◈ جو شخص کسی شرعی سنت کے مطابق کوئی عمل شروع کرے اور دوسرے بھی اس کی پیروی کریں، تو اسے بھی ان سب کے برابر اجر ملے گا۔

وسایلِ مشروعہ کی گنجائش:

اس حدیث کے ایک اور مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ:

◈ اگر کوئی شخص کسی ایسی جائز چیز کو اختیار کرے جو شرعی عبادت کے لیے ذریعہ بن جائے، تو وہ بھی حدیث کے دائرے میں آتا ہے۔

مثلاً:

دینی کتب کی تصنیف
علمی ابواب کی ترتیب
دینی مدارس کی تعمیر

یہ تمام کام وسائل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اور شریعت میں ان کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ خود شریعت سے متصادم نہ ہوں۔

بدعت ایجاد کرنا ناقابلِ قبول ہے:

اگر کوئی یہ مفہوم لے کہ:

◈ انسان جو چاہے دین میں ایجاد کر سکتا ہے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دین مکمل نہیں تھا۔

اس گمان کے نتیجے میں:

◈ ہر گروہ کو اپنا الگ دین بنانے کی اجازت ہو جائے گی۔

یہ تصور سراسر باطل ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کی کھلی تردید ہے:

«کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
(صحیح مسلم، الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة، ح: ۸۶۷)
’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1