قرآن مجید کی قسم کھانے کا شرعی حکم
سوال:
قرآن مجید کی قسم اٹھانا کیسا ہے؟
قرآن مجید کا واسطہ دے کر حلف اٹھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کی وضاحت کچھ تفصیل سے ضروری ہے کیونکہ قسم کھانے کا تعلق انسان کے اعتقادات اور عقیدت سے ہے۔
قسم کھانے کی حقیقت
◈ کسی چیز کی قسم کھانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ چیز قسم کھانے والے کے نزدیک بڑی عظمت رکھتی ہے۔
◈ شریعت کا اصول یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام یا صفات کے ساتھ ہی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
◈ مثال کے طور پر:
- "اللہ کی قسم! میں ایسا کروں گا۔”
- "رب کعبہ کی قسم! یہ کام ضرور کروں گا۔”
- "اللہ کی عزت کی قسم! میں یہ معاملہ انجام دوں گا۔”
◈ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ بھی قسم کھانا جائز ہے۔
قرآن مجید اور اللہ کا کلام
◈ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی صفت ہے۔
◈ یہ صفت ذاتی اور فعلی دونوں لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے:
- ذاتی لحاظ سے: اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے اور ہمیشہ متکلم رہے گا۔
- فعلی لحاظ سے: جب وہ چاہے، تب کلام فرماتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّما أَمرُهُ إِذا أَرادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ﴾ … سورة يس: ٨٢
"اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی انجام دہی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ‘ہو جا’ تو وہ ہو جاتی ہے۔”
◈ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی مشیت اور ارادے کے ساتھ وابستہ ہے۔
کلام الٰہی کے بارے میں غلط عقائد کی تردید
◈ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ "اللہ تعالیٰ کا کلام ازلی ہے اور اس کی مشیت سے آزاد ہے”، یہ بات باطل ہے۔
◈ ایسے عقیدے کے مطابق کلامِ الٰہی ایسا کلام نہیں ہوتا جو سنا جا سکے، بلکہ وہ مخلوق جیسا تصور کیا جاتا ہے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تِسْعِیْنِیَّۃ میں اس نظریے کو نوے وجوہات سے باطل ثابت کیا ہے۔
قرآن کی قسم کھانے کا حکم
◈ چونکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس لیے قرآن کی قسم کھانا جائز ہے۔
◈ مثلاً: کوئی کہے "قرآن کی قسم!” اور اس کا مطلب کلامِ الٰہی کی قسم ہو، تو یہ جائز ہے۔
◈ فقہائے حنابلہ نے اس مسئلے پر واضح تصریح کی ہے۔
تاہم:
◈ بہتر اور افضل یہ ہے کہ ایسی قسم کھائی جائے جو سننے والوں کے لیے واضح ہو اور انہیں الجھن میں نہ ڈالے۔
◈ مثلاً:
- "اللہ کی قسم!”
- "رب کعبہ کی قسم!”
- "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!”
◈ ایسے الفاظ عام لوگوں کے لیے معروف اور مانوس ہوتے ہیں۔
غیر اللہ کی قسم کھانے کا حکم
◈ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائے۔
◈ مثلاً:
- نبی کی قسم
- جبرئیل کی قسم
- کعبہ کی قسم
- کسی انسان یا مخلوق کی قسم
◈ یہ تمام قسمیں حرام ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللّٰهِ اَوْ لِيَصْمُتْ»
(صحیح البخاري، الشهادات، باب کیف یستحلف؟ ح: ۲۶۷۹ و صحیح مسلم، الایمان، باب النهی عن الحلف بغیر الله، ح:۱۶۴۶)
"جو شخص قسم کھانا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔”
مزید فرمایا:
«مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللّٰهِ فَقَدْ کَفَرَ اَوْ اَشْرَکَ»
(جامع الترمذي، النذور والایمان، باب ما جاء فی کراہیة الحلف بغیر الله، ح:۱۵۳۵)
"جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔”
اگر کوئی غیر اللہ کی قسم کھائے تو کیا کیا جائے؟
◈ اگر کوئی شخص نبی، کسی انسان یا مخلوق کی قسم کھاتا ہے:
- تو اسے نرمی اور شفقت سے سمجھایا جائے۔
- بتایا جائے کہ یہ عمل حرام ہے اور جائز نہیں۔
حکمت اور نرمی سے اصلاح کرنا
◈ کچھ لوگ نیکی کی دعوت سن کر غصے میں آ جاتے ہیں۔
◈ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے انتقام لیا جا رہا ہو۔
◈ ایسی حالت میں شیطان ان کے دلوں میں وسوسے ڈالنے لگتا ہے۔
حکمت اور محبت سے بات کی جائے
◈ لوگوں کے ساتھ ان کے مرتبے اور حالت کے مطابق بات کی جائے۔
◈ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت نرمی، محبت، اور خیر خواہی کے ساتھ دی جائے۔
◈ اس کے بہتر نتائج نکلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«اِنَّ اللّٰهَ يُعْطِی عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِی عَلَی الْعُنْفِ»
(صحیح مسلم، البر والصلة، باب فضل الرفق، ح:۲۵۹۳)
"بے شک اللہ تعالیٰ نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتا۔”
مسجد نبوی میں بدو کا واقعہ: اصلاح کی بہترین مثال
◈ ایک بدو نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا۔
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غصے میں آ کر ڈانٹنا شروع کر دیا۔
◈ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا۔
جب بدو فارغ ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ هٰذِهِ الْمَسَاجِد لا يصلح فيها شیء من الأذی أوالقذر،انماهی للتکبير والتسبيح وقراء ة القرآنَِ»
(صحیح مسلم، الطهارة، باب وجوب غسل البول وغیره من النجاسات… ح:۲۸۵)
"ان مسجدوں میں گندگی یا اذیت کی کوئی چیز درست نہیں ہے، یہ صرف اللہ کی بڑائی، تسبیح، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہیں۔”
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ پیشاب پر پانی ڈال دیا جائے۔
◈ اس سے:
- جگہ پاک ہو گئی،
- جاہل کو شفقت سے سمجھا دیا گیا،
- اور اصلاح کا مقصد بھی پورا ہو گیا۔
نتیجہ
◈ قرآن مجید کی قسم کھانا جائز ہے، کیونکہ وہ اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے۔
◈ لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسی قسم کھائی جائے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔
◈ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام اور شرک یا کفر کے درجے میں ہے۔
◈ اصلاح کا عمل نرمی، حکمت، اور محبت کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ مخاطب متاثر ہو اور قبول کرے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب